پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج ہیں، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
پاکستان کی سیکیورٹی کی حفاظت
راولپنڈی (ڈیلی پاکستان آن لائن) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہل کاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: ہاوسنگ سکیم میں اربوں روپے کا مبینہ فراڈ: سابق سینیٹر وقار احمد خان گرفتار
طالبان کے ساتھ ترقی کی لڑائی
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔
یہ بھی پڑھیں: محسن نقوی اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کے درمیان رابطہ، کیا بات ہوئی؟ جانئے
ڈرون کے حوالے سے وضاحت
ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں جلد ایک بڑی تحریک شروع ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں، صحافی زاہد گشکوری
دہشت گردی کی شکار پاکستان
ان کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں طالبان کو واضح بتایا ہے کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور یہ کیسے کرنی ہے یہ آپ کا کام ہے، یہ ہمارے لوگ تھے جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا یہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے، ان کو ہمارے حوالے کردیں ہم ان کو آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: عائزہ خان اور دانش تیمور کی عید تصاویر وائرل ہوگئیں
مقامی مسائل اور معیشت
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی، جرائم پیشہ افراد اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ لوگ افیون کاشت کرتے ہیں اور 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ پیداوار حاصل کرتے ہیں، پوری آبادی ان لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے، وار لارڈز ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو جاتا ہے، دہشت گردی، چرس، اسمگلنگ یہ سب کام یہ لوگ مل کر کرتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انسانی ہاتھوں کے نشانات کا استعمال کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے پرچم کا گنیز ورلڈ ریکارڈ میں شمولیت کا باضابطہ اعلان
فوج کے داخلہ معاملات
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کوئی عہدہ کریئیٹ ہونا ہے تو یہ حکومت کا اختیار ہے ہمارا نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رجب بٹ کو پولیس نے گرفتار کر لیا
انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فوج نے وادی تیرہ میں کوئی آپریشن کیا، اگر ہم آپریشن کریں گے تو بتائیں گے، ہم نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں جن میں 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسر شہید ہوئے، ہماری چوکیوں پر جو قافلے رسد لےکر جاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اس کی آواز بھاری اور خوفناک تھی، تھوڑے رکھ رکھاؤ سے ملتا رہا، اب لوگوں کی آمدو رفت شروع ہوگئی جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بن رہی تھی
گورنر راج اور ذمہ داریاں
گورنر راج کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری نہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی شہریوں کی پاکستانی سیاسی اجتماعات میں شرکت مکمل طور پر غیرقانونی ہے: ترجمان دفتر خارجہ
استنبول کانفرنس کا موقف
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں جو کانفرنس ہونی ہے ہمارا موقف بالکل کلیئر ہے، دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے، افغان سرزمین استعمال نہیں ہونی چاہیے، سیزفائر معاہدہ ہماری طاقت سے ہوا، افغان طالبان ہمارے دوست ممالک کے پاس چلے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے ججز کا بیرون ملک سفر چیف جسٹس کی اجازت سے مشروط
اخلاقیات کا درس
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اخلاقیات نہ سکھائے اور ہم کسی کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منت سماجت نہیں کررہے، ہم اپنی مسلح افواج اور لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جس طرح پاکستان میں ملکہ ترنم نور جہاں کا بڑا نام ہے ٹھیک اسی طرح مصر میں اُم کلثوم کو یہ رتبہ حاصل تھا،انکی آواز کے مصری دیوانے تھے۔
غزہ میں فوج بھیجنے کا معاملہ
غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں حکومت کا معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک کے بڑے دریاؤں میں پانی کی آمد میں کمی ریکارڈ
سرحدی مسائل اور مقامی انتظامات
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40 کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے، ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں، یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتا ہے، ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔
حکومتی فیصلے اور افہام و تفہیم
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟








