محلے کے بچوں کو بڑے فخر سے بتاتا میرے پاس ریل گاڑی بھی ہے۔ ایک دن یہ دیکھنے کے چکر میں کہ آخر یہ چلتی کیسے ہے، میں نے اس کا تیا پانچہ کر ڈالا۔
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 298
باب 2: ننھی منی گاڑیاں
سعید ریلوے
یہ میرے بچپن کی بات ہے کہ میرے ریل گاڑیوں سے عشق کو دیکھتے ہوئے میرے ابا جان نے مجھے چابی سے چلنے والی ایک ریل گاڑی لا کر دی تھی، جس میں پلاسٹک کے تین چار ڈبوں کے علاوہ ایک انجن بھی آگے لگا ہوا ہوتا تھا۔ اس کی چابی مروڑ کر اسے گول سی پٹری پر رکھ دیا جاتا تھا تو یہ منی سی گاڑی اپنے پیچھے لگائے ایک چھوٹے سے دائرے میں ترکی کے درویشوں کی مانند گھومتا رہتا تھا، یہاں تک کہ اس کی چابی ختم نہ ہو جاتی۔ پھر وہ ہانپتا کانپتا دم توڑ دیتا اور گاڑی بھی دو چار ہچکیاں لے کر رک جاتی۔ میرے لیے یہ تفریح کافی تھی اور میں محلے کے بچوں کو بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ میرے پاس اپنی ریل گاڑی ہے۔ پھر ایک دن دیکھنے کے چکر میں، میں نے چھری سے اسے کھول کر اس کا تیا پانچہ کر ڈالا۔
وقت کا سفر
وقت بیت گیا اور کئی دہائیوں کا وقفہ آ گیا لیکن میں نے ریل کا سفر نہیں چھوڑا۔ ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب جانا ہوا تو وہاں سے سالانہ تعطیلات پر آتے ہوئے اپنے بھتیجے کے لیے ایک بڑے سے ڈبے میں بند ریل گاڑی خرید کر لے گیا۔ اس بیچارے کا تو بس نام ہی استعمال ہوا، دراصل میرے اندر بچپن سے گاڑیوں کی جو محبت بسی ہوئی تھی وہ سامنے آئی۔ اس گاڑی میں مسافر اور مال گاڑی کے ڈبے تھے، ایک بڑا سا ڈیزل انجن بھی لگا ہوا تھا اور جڑنے والے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں ایک قدرے لمبی پٹری بھی تھی۔ پھر میں اپنے بھتیجے کے ساتھ مل کر اس گاڑی سے خوب کھل کر کھیلا اور یوں کسی حد تک بے چین دل کو قرار آ ہی گیا۔
لندن کی یاترا
وقت کا پہیہ ایک بار پھر تیزی سے گھوما تو لندن کی یاترا کے دوران میرا ریل گاڑیوں کا شیدائی ایک انگریز دوست ٹم وارنر مجھے ماڈل ٹرین کے ایک بڑے سے سٹور میں لے گیا۔ وہاں ریل سے متعلق ہر طرح کی چھوٹی چھوٹی اور دیدہ زیب اشیاء سلیقے اور ترتیب سے موجود تھیں۔ یہاں بالکل اصلی لگنے والی مْنی ریل گاڑیاں، سٹیم، الیکٹرک اور ڈیزل لوکوموٹیو، اسٹیشن کی عمارتیں، گودام، پلیٹ فارم، سگنل، پانی کی ٹینکیاں، لمبی چوڑی پٹریاں اور ان کو عبور کرنے والے پیدل مسافروں کے پْل، لیول کراسنگ اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ موجود تھا۔
دوستی اور شوق
ٹم وارنر جب کاروبار کے سلسلے میں سعودی عرب آتا تھا تو ہم کھل کر ریلوے کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ خصوصاً وہ اپنی ماڈل ٹرین کا ذکر محبت سے کرتا رہتا تھا۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب کبھی میں لندن آؤں تو اس سے ضرور ملوں تاکہ وہ میرے اس شوق کی تکمیل میں کچھ مدد کر سکے۔ اور اب وہ یہی سب کچھ کر رہا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








