صاحب کو مارننگ شو میں شرکت کرنی تھی، ہمیں دیر ہو گئی، پروگرام شروع ہونے میں 5 منٹ باقی تھے، ڈرائیور نے ٹریفک اشارہ جمپ کیا، صاحب نے خوب کلاس لی۔
مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 340
یہ بھی پڑھیں: پریکٹس سیشن کے دوران زخمی ہونے والے بابر اعظم اب کیسے ہیں ؟
گاڑی کی خریداری
پچیس سو سی سی سے بڑی گاڑی خریدنے کے لئے وفاقی حکومت کی اجازت درکار تھی۔ وفاقی حکومت کی اجازت جب تک آتی، شیخ علاؤالدین صاحب ایم پی اے کی جیل روڈ کے شو روم پر کالی "پراڈو" کھڑی تھی۔ انہوں نے صاحب سے کہا؛ "سر! یہ آپ منگوا لیں۔ پتہ نہیں پھر کالے رنگ میں گاڑی ملے نہ ملے۔"، گاڑی شو روم سے میں ہی چلا کر صاحب کے گھر چھوڑ آیا تھا (زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار شو روم سے گاڑی نکالنے کا میرا یہ یادگار تجربہ تھا) لیکن صاحب نے استعمال تب کی جب وفاقی حکومت سے اجازت نامہ موصول ہوا تھا۔ یہ ان کی اصول پسندی تھی۔ صاحب کے زیر استعمال دونوں گاڑیاں حکومت کے خاتمے کے اگلے روز ہی واپس کر دی گئی تھیں۔ پراڈو میں خود سیکرٹری بلدیات اخلاق تارڑ صاحب کے گھر چھوڑنے گیا تو سکریچ لیس پراڈو کو دیکھ کر تارڑ صاحب حیران رہ گئے تھے۔ 45-50 ہزار کلو میٹر چلی گاڑی پر ایک داغ بھی نہ تھا۔ سکریٹری کہنے لگے؛ "شہزاد! اڈّی چنگی حالت دی گڈی تے کسی پرائیوٹ بندے دی وی نئیں ہوندی۔ کمال اے۔" یہ صاحب کو tribute تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں سمندر پار پاکستانیوں کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کردی گئیں: وزیراعظم
موٹر وے اور چالان کا واقعہ
ایک روز صاحب کو پاکستان ٹیلی وژن کے مارننگ شو میں شرکت کرنی تھی۔ ہمیں گھر میں ہی کچھ دیر ہو گئی۔ پروگرام شروع ہونے میں 5 منٹ باقی تھے۔ ڈرائیور نے الحمراء والا ٹریفک اشارہ جمپ کیا۔ صاحب نے اس کی خوب کلاس لی۔ آئندہ سے ایسا کرنے سے اورنگ زیب تائب ہو گیا تھا۔ کئی بار موٹر وے اور ایک بار جی ٹی روڈ پر سپیڈنگ کرتے چالان ہوا۔ مجال ہے کبھی ڈرائیور نے چالان کرانے والے سے صاحب کا تعارف کرایا ہو۔ چالان کرایا، رقم ادا کی اور آگے نکل گئے۔ ایک بار موٹر وے پولیس والے نے پہچان لیا اور ادب سے پوچھا؛ “وزیر قانون؟” صاحب نے جواب دیا؛ “ڈرائیور کا چالان کریں۔ میرا نہیں۔” غلط فہمی میں لاہور علامہ اقبال ائیر پورٹ پر ایک بار صاحب کی تلاشی ہوئی۔ تب تک مجھے نہیں علم تھا کہ منسٹر تلاشی سے مستثنیٰ ہوتے تھے۔ خیر میں نے ائیر پورٹ سیکیورٹی والے کو بتایا کہ منسٹر ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا، صاحب بولے؛ "شہزاد صاحب! اس نے اپنی ڈیوٹی پوری کی ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ امتِ مسلمہ کی ڈھال کے مترادف ہے: وزیر اعلیٰ مریم نواز
سرکاری جہاز میں سفر
اس دور میں دہشت گردی زوروں پر تھی۔ ہر دوسرے دن کہیں نہ کہیں کوئی دھماکہ ہوتا اور بہت سی قیمتی جانوں کا ضیاع بھی۔ بچے یتیم ہو جاتے، ماؤں کی گود اجڑ جاتی، سہاگنیں بیوہ ہو جاتیں، باپوں کے ارمان اور سپنے بکھر جاتے۔ یہ مشکل وقت تھا۔ حکومت بھی اپنے تعین بھر پور کوشش کرتی کہ مرنے والوں کے خاندانوں کا سہارا بنے اور ان کے دکھ میں کچھ ڈھارس بندھائے۔ مال و زر دے کر، ہمت و دلاسہ دے کر ان کا غم کم کرے۔ سب سے بڑھ کر پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کا مورال بلند رکھے اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔ مرنے والوں میں سرکاری اہلکار جو فرض کی ادائیگی پر جان نچھاور کر جاتے انہیں عزت و احترام سے ان کے سفر آخرت پر بھیجے۔ ان کے جنازوں میں انتظامی افسران کی اور حکومتی اہم شخصیات کی شرکت دراصل ملک کے دشمنوں کو پیغام ہوتا کہ ہم ڈرنے والے نہیں ہم ہارنے والے بھی نہیں۔ ابھی ہمارے جذبے جوان ہیں اور ان شہداء کی قربانیاں ہمارے عزائم کو جلا بخشتی ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








