ٹیکسوں کا بوجھ معاشی تباہی کا راستہ، حکومتی دعوؤں اور حقائق میں کھلا تضاد ہے، گوہر اعجاز
گوہر اعجاز کا معاشی بوجھ پر بیان
لاہور ( نیوز ڈیسک ) سابق نگراں وزیر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ ٹیکسوں کا بھاری بوجھ معاشی تباہی کا راستہ ہے، حکومتی دعوؤں اور حقائق میں کھلا تضاد ہے، حکومت معیشت سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزن کم کرنے والے انجیکشن کا مردوں پر زیادہ اثر ہوتا ہے یا خواتین پر؟ حیران کن تحقیق سامنے آگئی۔
ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے اثرات
ایک بیان میں گوہر اعجاز نے کہا کہ حکومت 2028ء میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 18 فیصد کرنا چاہتی ہے۔ حکومت ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید بوجھ ڈالنا چاہتی ہے، جبکہ کمزور معیشت پر بھاری ٹیکسز کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ بزنسز سے ٹیکس وصولیاں 2 اعشاریہ 2 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 5 اعشاریہ 3 ٹریلین روپے ہو چکیں، تنخواہ داروں سے ٹیکس وصولیاں 206 فیصد بڑھ چکی ہیں۔ یہ وصولیاں 188 ارب سے بڑھ کر 580 ارب تک پہنچ چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بدین؛گاڑیاں آپس میں ٹکرانے سے 2افراد جاں بحق، 30 سے زائد مویشی ہلاک
ایکنامک پالیسی کی رپورٹ
’’جنگ ‘‘ کے مطابق گوہر اعجاز نے یہ بھی کہا کہ اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ نے بھاری ٹیکسز سے متعلق رپورٹ دی ہے، جس میں 3 برس میں کاروباری گروپس سے 131 فیصد اضافی ٹیکس وصول کیا گیا۔ ایف بی آر جان بوجھ کر ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 10 فیصد ظاہر کر رہا ہے، درحقیقت یہ 12 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ٹیکسوں کا بوجھ 10 فیصد سے بڑھ کر 12 اعشاریہ 2 فیصد ہو چکا ہے، جبکہ 3 سال میں پیٹرولیم لیوی وصولیوں میں 760 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مواردات اور سرمایہ کاری
پاکستان کی جی ڈی پی 4 فیصد سے کم رہی ہے، ٹیکس وصولیوں اور جی ڈی پی میں تضاد سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ بھاری ٹیکسز کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، جبکہ ایف بی آر غیر حقیقی ٹیکس اہداف مقرر کر رہا ہے۔








