ایک لمحہ جو ٹھہر گیا ۔۔۔

ایک خاص صبح

وہ صبح عام صبحوں جیسی نہیں تھی۔ ارم نے جب آنکھ کھولی تو کھڑکی سے آتی ہلکی روشنی میں بارش کے بعد کی نمی محسوس ہوئی۔ ہوا میں ایک خوشبو تھی ، مٹی، کافی اور تنہائی کی۔
یہ شہر لاہور دن بدن شور میں ڈوبتا جا رہا تھا، مگر ارم کے کمرے میں خاموشی کا راج تھا۔ وہ اکیلی رہتی تھی، ایک پرانی عمارت کے تیسرے فلور پر، جہاں بالکونی سے نیچے ایک کیفے نظر آتا تھا۔ اسی کیفے میں وہ اکثر اپنی کافی لے کر بیٹھتی، کسی کتاب میں کھو جاتی یا پھر لوگوں کو دیکھتی رہتی۔ اجنبی چہروں میں کہانیاں ڈھونڈنے کی اسے عادت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی امریکی سرمایہ کاروں کو پنجاب میں سرمایہ کاری کی دعوت

تنہائی اور فن کا ساتھ

وہ کرائے کے ایک گھر میں تنہا رہا کرتی تھی، بہن بھائی کوئی تھا نہیں اور ماں باپ بہت پہلے ایک ٹریفک حادثے میں دنیا سے گذر گئے تھے۔ اب اس کا فن ہی اس کی زندگی اور اس کی تنہائی ہی اس کی ساتھی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ اور بلوچستان میں گرمیوں کی چھٹیاں ختم، تعلیمی ادارے کھل گئے

زندگی کی سکرین

وہ ایک فری لانس گرافک ڈیزائنر تھی، گھر سے کام کرتی تھی۔ دنیا اس کے لیے ایک اسکرین تھی، جہاں رنگ، تحریریں اور خواب اکٹھے ہوتے تھے۔ مگر اسکرین کے پار، حقیقی دنیا میں، وہ تنہا تھی۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ وہ اپنے ہی وجود کی خاموش بازگشت میں قید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں مودی حکومت کے خلاف ملک گیر ہڑتال، ایک دن میں معیشت کو 15 ہزار کروڑ کا نقصان

نیا چہرہ

اسی دن نیچے کیفے میں ایک نیا چہرہ نظر آیا۔ وہ لڑکا، جس کے ہاتھ میں کیمرہ تھا اور نظریں کسی کہانی کی تلاش میں۔ اس نے ایک کافی آرڈر کی، اور پھر سامنے بیٹھ کر نوٹ بک پر کچھ لکھنے لگا۔ ارم کی نظریں غیر ارادی طور پر اس پر جم گئیں۔
اس کے چہرے پر ایک طرح کی خاموش شدت تھی، جیسے وہ بولنا چاہتا ہو مگر الفاظ نہ مل رہے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: رحیم یار خان میں 13 سالہ بچی کی موت، ماں نے گھر لے جا کر لاش دیکھی تو پیروں تلے زمین نکل گئی، پولیس کی دوڑیں

دوستی کا آغاز

کچھ دن ایسے ہی گزر گئے۔ وہ لڑکا روز آتا، ایک ہی میز پر بیٹھتا، کافی پیتا، اور کبھی کسی تصویر پر جھک کر کچھ نوٹ کرتا۔
پھر ایک دن جب ارم نے نیچے سے اپنی کافی لی، تو وہ اتفاقاً اسی میز کے قریب سے گزری۔ لڑکے نے سر اٹھا کر دیکھا، اور مسکرا دیا۔
بس وہ ایک مسکراہٹ تھی، مگر ارم کے اندر جیسے کوئی دروازہ کھل گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایکسپو سٹی دبئی میں پاکستان کا جشنِ آزادی روایتی جوش و خروش سے منایا گیا

پہلی گفتگو

اگلے دن وہ پھر کیفے میں گئی، مگر اس بار کافی لے کر وہ سامنے والی خالی کرسی پر رک گئی۔
“یہ جگہ خالی ہے؟”
“اب نہیں۔” لڑکے نے ہلکی ہنسی کے ساتھ کہا۔
“آپ فوٹوگرافر ہیں؟”
“کبھی تھا۔ اب زیادہ لکھتا ہوں۔”
“کیا لکھتے ہیں؟”
“لمحات۔ جو گزر جاتے ہیں، مگر رہ جاتے ہیں۔”
ارم کو اس کا انداز پسند آیا۔
“میں بھی لمحات ڈیزائن کرتی ہوں۔”
“کیا مطلب؟”
“میں گرافک ڈیزائنر ہوں۔ لوگ تصویریں اور رنگ مانگتے ہیں، مگر میں ان میں احساس ڈھونڈتی ہوں।”

یہ بھی پڑھیں: 28 مئی کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان

نرم وابستگی

اور پھر وہ دونوں ہنس پڑے۔
یوں وہ ملاقات، جو شاید چند لمحوں کی تھی، ایک خاموش آغاز بن گئی۔

دن گزرتے گئے۔ وہ دونوں روز کیفے میں ملتے، کبھی باتیں کرتے، کبھی خاموش بیٹھتے۔ خاموشی بھی کبھی کبھار گفتگو سے زیادہ سچی ہوتی ہے۔
لڑکے کا نام فراز تھا۔ وہ کبھی اخبارات کے لیے تصویریں کھینچتا تھا، مگر اب ایک آزاد فوٹوگرافر کے طور پر کہانیاں لکھتا اور کیمرے سے ان کے عکس قید کرتا تھا۔
ارم کے لیے وہ کسی فلمی کردار کی طرح تھا — تھوڑا اداس، تھوڑا پرعزم۔

یہ بھی پڑھیں: وزیرآباد: ٹرک کی موٹرسائیکل کو ٹکر، 4 افراد جاں بحق

سوالات اور احساسات

ایک دن فراز نے ارم سے پوچھا، “کبھی اپنے بارے میں سوچا؟ تم اتنی خاموش کیوں ہو؟”
ارم نے کچھ دیر سوچ کر کہا، “کیونکہ لوگ شور سنتے ہیں، احساس نہیں۔ میں وہ باتیں سننا چاہتی ہوں جو لفظوں کے بعد بھی باقی رہتی ہیں۔”
فراز نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، جیسے وہاں کوئی جواب چھپا ہو۔
“کبھی کبھی لگتا ہے تم خود ایک کہانی ہو، ارم۔”
“اور تم شاید وہ مصنف ہو جو اسے پڑھنا چاہتا ہے،” ارم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

یہ بھی پڑھیں: قائداعظمؒ کا قول: ہندو تقسیم ہند کے خلاف اس لیے تھا کہ مسلمان اُن کے اختیار سے باہر ہو جائیں گے، ان کی تجارت فیل ہو جائے گی

اعتراف اور وعدے

ان کے درمیان اب ایک نرم سی وابستگی تھی۔ وہ دونوں زندگی سے بھاگے ہوئے دو وجود تھے، جنہیں ایک دوسرے میں سکون مل رہا تھا۔

پھر ایک دن، فراز نے کہا، “میں ایک پروجیکٹ پر شمال جا رہا ہوں، شاید دو مہینے کے لیے۔ تم یاد کرو گی؟”
ارم نے سر جھکایا، “میں تو تمہیں پہلے ہی یاد کرتی ہوں، جب تم سامنے بھی ہوتے ہو۔”
فراز نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ “میں واپس آؤں گا، صرف تمہارے لیے۔”
اور وہ چلا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مجھے لگتا ہے مودی کی کمزور نس چین کے ہاتھ میں ہے؟ بھارتی صحافی دنیش ووہرا کا وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ

انتظار کی گھڑیاں

ارم نے ان دنوں میں کام کیا، مگر دل اکثر کھڑکی کے اس پار ٹھہر جاتا۔
فراز نے کچھ خطوط بھیجے، چند تصویریں — برف میں ڈھکے پہاڑ، دریا کے کنارے ایک لکڑی کی بینچ، اور ایک تصویر میں اس نے خود کو ارم کے لیے مسکراتے ہوئے بھیجا۔

یہ بھی پڑھیں: کینیڈا کی خفیہ ایجنسی نے بھارت کو غیر ملکی مداخلت کا مرتکب قرار دیدیا

خاموشی اور خوف

مگر پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔ کوئی خط نہیں، کوئی پیغام نہیں۔
ایک ہفتہ، دو، پھر تین۔
ارم کے اندر خوف سا اترنے لگا۔
کیا وہ لوٹے گا؟ کیا کہانیاں ہمیشہ ادھوری رہتی ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: بچے ماؤں سے چمٹ جاتے، بڑے اُچھل کر کچھ دور جا کر کھڑے ہو جاتے، اب مسافروں اور آس پاس کے مکینوں کو ایسی ہی بھیانک آواز کے ساتھ جینا تھا۔

خوش آمدید

پھر ایک دن، دروازے پر دستک ہوئی۔
ارم نے دروازہ کھولا تو سامنے وہی تھا — فراز۔ چہرہ تھکا ہوا، مگر آنکھوں میں روشنی۔
“میں واپس آگیا ہوں۔”
ارم کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ “میں نے سوچا تم نہیں آؤ گے۔”
“میں نے سوچا اگر نہ آیا تو شاید کبھی خود کو معاف نہ کر سکوں گا۔”

یہ بھی پڑھیں: کینال پر قبضہ کرنے کی ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر پاناما کے صدر نے جواب دیا

پیار کا وعدہ

اس نے جیب سے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکالا۔
“یہ تمہارے لیے۔”
اندر ایک چھوٹی سی چاندی کی انگوٹھی تھی — بہت سادہ، مگر معنی سے بھری۔
“یہ محبت کی نشانی نہیں، وعدے کی ہے۔ کہ ہم دونوں مل کر وہ زندگی بنائیں گے، جس میں خاموشی بھی خوشی بن جائے۔”
ارم نے مسکرا کر کہا، “اور اگر کبھی شور زیادہ ہو گیا؟”
فراز نے اس کے ہاتھ تھام کر کہا، “تو ہم اپنی محبت کی آواز بڑھا دیں گے۔”

یہ بھی پڑھیں: ایمن آباد: وہ شہر جہاں گرو نانک نے گھاس کھا کر کنکریوں پر عبادت کی، قید کاٹی اور چکی بھی پیسی

یادگار لمحے

رات ایک عجیب سی روشنی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بارش کے بعد شہر کی سڑکیں بھیگی تھیں، اور فضا میں وہ مخصوص نمی تھی جو یادوں کو جگا دیتی ہے۔ ارم نے بالکونی سے نیچے دیکھا، فراز نیچے کیفے میں بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک ٹھہری ہوئی مسکراہٹ تھی، جیسے وہ جانتا ہو کہ وہ اوپر سے دیکھ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: گلبرگ میں 3 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد قتل، رکشہ ڈرائیور قاتل نکلا، اعتراف جرم کرلیا

ایک نئی زندگی

اب ان کی ملاقاتیں روز کی بات بن گئیں۔ کبھی وہ فلمیں دیکھتے، کبھی گلیوں میں بے مقصد گھومتے، کبھی چائے کے کپ کے ساتھ خاموش بیٹھ جاتے۔ فراز نے ارم کو اپنے کیمرے سے تصویریں لینا سکھایا۔ ارم نے فراز کو اپنے ڈیزائن کے رنگ دکھائے۔ دونوں کے بیچ ایک عجیب سا توازن پیدا ہو گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی ایک دو بار پھر تسلی تشفی ہوگی تو مذاکرات کامیاب ہوجائیں گے، رانا ثنا اللہ

محبت کی تعریف

ایک شام فراز نے کہا، “کیا محبت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہے؟”
ارم نے کہا، “شاید نہیں۔ محبت وہ ہے جو لفظوں سے پہلے شروع ہوتی ہے اور لفظوں کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔”

یہ بھی پڑھیں: تہران میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کی ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سے ملاقات، اہم امور پر گفتگو

زندگی کا نیا مرحلہ

پھر زندگی نے ایک موڑ لیا۔ فراز کو ایک بڑا پروجیکٹ ملا — دبئی میں۔ چھ ماہ کے لیے۔
“میں نہیں چاہتا کہ تم روکو مجھے،” اس نے کہا۔
“میں کیوں روکوں؟ محبت اگر قید بن جائے تو وہ محبت نہیں رہتی۔”
“تم واقعی سمجھتی ہو نا، میں واپس آؤں گا؟”
“تم جا رہے ہو، لیکن واپس تو وہی لوگ آتے ہیں جن کے پاس کوئی انتظار کرنے والا ہو۔”
“پھر میں ضرور واپس آؤں گا۔”

یہ بھی پڑھیں: ہر کامیاب ڈرامے کے بعد میڈیا نے میری شادی کروائی : شائستہ جبین

دکھ اور دعا

مگر جب وہ گیا، ارم کے دن طویل اور راتیں خالی ہو گئیں۔
پھر ایک دن پیغام آیا — “مجھے تمہاری ضرورت ہے، ابھی۔”
ارم کا دل رک گیا۔ کال کی، مگر جواب نہ آیا۔ پھر پیغام آیا — “کال مت کرو، بس دعا کرو۔”
وہ رو دی۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین کا ایپل اور میٹا پر 70 کروڑ یورو کا جرمانہ، ٹرمپ کی ناراضی کا خطرہ

موڑ پر مشکلات

کچھ دن بعد پتا چلا، فراز ایک حادثے میں زخمی ہوا ہے۔ ارم نے ٹکٹ لی، مگر جا نہ سکی۔ وہ بس روز دعا کرتی رہی۔
پھر ایک ویڈیو کال آئی۔ فراز کا چہرہ کمزور مگر زندہ تھا۔
“میں ٹھیک ہوں، ارم۔ بس تھوڑا وقت لگے گا۔”
“تمہیں اندازہ ہے میں نے کیا کیا سوچ لیا تھا؟”
“محبت میں اندیشے بھی محبت کی علامت ہیں۔ تم فکر کرتی ہو، اس کا مطلب ہے تم واقعی میری ہو۔”
ارم اب خود ایک سوال بن گئی تھی۔“واپسی کب تک ہوگی ؟”
“جلد۔ بس وعدہ کرو، ہار نہیں مانو گی۔”

یہ بھی پڑھیں: لاہور آج بھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر آگیا

خیال کی طاقت

فراز خود ناتواں ہوئے ہوئے بھی ارم کی طاقت بن گیا تھا کیونکہ اس کا ہونا ہی ارم کے لیے اہم تھا۔
“میں تب تک ہار نہیں مانوں گی جب تک تم واپس نہیں آ جاتے۔”

یہ بھی پڑھیں: الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں ریسکیو و ریلیف آپریشن کا آغاز کردیا گیا

ایک نئی شروعات

چند ہفتے بعد وہ واپس آیا۔ داغ چہرے پر، مگر روشنی آنکھوں میں۔
“میں نے بہت کچھ کھو دیا، مگر سب سے قیمتی چیز یہی سمجھی — تم۔”
“پھر آؤ، دوبارہ سب کچھ شروع کرتے ہیں۔”
“پھر سے کیوں؟ وہ کبھی ختم ہوا ہی کب تھا۔”

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 45 کروڑ اور آمدنی صرف 60 ہزار، بھارت کی سب سے بڑی فلاپ فلم کونسی ہے؟

تخلیقی سفر

دونوں نے ساتھ کام شروع کیا۔ ان کا پروجیکٹ “چہرے کہانیاں” مشہور ہوا۔
ایک شام فراز نے سب کے سامنے کہا، “یہ صرف میری پارٹنر نہیں، میری کہانی کی مصنفہ ہے۔”
ارم مسکرائی، “اور اگر تم نہ ہوتے، تو شاید میں آج بھی رنگوں میں احساس ڈھونڈ رہی ہوتی۔”

یہ بھی پڑھیں: 1 مئی مقدمات: آئندہ سماعت پر ملزمان کے وکلاء جرح کیلئے طلب

محبت کی روشنی

رات آئی، شہر سو گیا، مگر ان کی کہانی جاگتی رہی۔
اسی رات فراز نے ایک چھوٹی سی انگوٹھی ارم کے ہاتھ میں رکھی۔
“کیا تم میری زندگی کی سب سے سچی تصویر بننا چاہو گی؟”
ارم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی، “ہاں، کیونکہ میں تمہارے بغیر ادھورا رنگ ہوں۔”

یہ بھی پڑھیں: سموگ کا روگ کم نہ ہو سکا،آلودہ ترین شہروں میں ملتان سرفہرست

نکاح اور نئے خواب

انہوں نے نکاح کیا — سادہ، خاموش، مگر خوبصورت۔
پھر دونوں نے اسٹوڈیو کھولا: “خاموش روشنی”۔
وہ عام لوگوں کی کہانیاں قید کرتے، محبت کی تصویریں بناتے۔

یہ بھی پڑھیں: ماموند عمر خیل قبائل کے دو گروپوں میں 31سال بعد صلح ہوگئی

آخری تصویر

ایک شام فراز نے کہا، “چلو، ایک آخری تصویر لیتے ہیں۔”
ٹائمر لگا، فلیش چمکا، اور وہ دونوں مسکرا رہے تھے۔
پیچھے فراز نے لکھا:
“محبت وہ نہیں جو دل میں رہے، محبت وہ ہے جو وقت کے ساتھ مزید گہری ہوتی جائے۔”

یہ بھی پڑھیں: امریکی کمپنی کا بھارتی سی ای او انتہائی شرمناک کام کرتے ہوئے پکڑا گیا

راز محبت

وقت گزرتا گیا۔ ایک دن ایک لڑکی آئی، “آپ دونوں کی تصویروں میں زندگی ہے، آکر اس کا راز کیا ہے؟”
ارم نے کہا، “راز؟ بس محبت کو تصویر بننے سے پہلے محسوس کر لو۔ پھر وہ کبھی مٹتی نہیں۔”

یہ بھی پڑھیں: ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ایف سی چیک پوسٹ پر فتنہ خوارج کے دہشتگردوں کا حملہ، 10 جوان شہید

یادیں اور محبت

شام کو بارش ہونے لگی۔ فراز نے کہا، “یاد ہے وہ پہلا دن؟ جب تم چھت سے دیکھ رہی تھیں؟”
“ہاں، اور تم نے پہلی بار مسکرا کر میری طرف دیکھا تھا۔”
“میں نے تب ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر وہ مسکراہٹ دوبارہ ملی، تو میں اسے کبھی جانے نہیں دوں گا۔”
“پھر تم کامیاب ہو گئے۔”
“نہیں، کامیاب تب ہوں گا جب وقت رک جائے اور ہم دونوں ایک لمحے میں ہمیشہ کے لیے رہ جائیں۔”

یہ بھی پڑھیں: ایلون مسک شاید تاریخ میں سب سے زیادہ سبسڈی حاصل کرنے والا انسان ہے: ٹرمپ

محبت کی خوشبو

ارم نے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ بارش کی خوشبو، کافی کی مہک، وہی خاموشی — سب کچھ پھر سے لوٹ آیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈولفن ایان: ‘مجھے ویڈیو بنا کر مسلسل بلیک میل کیا گیا، اسی خوف کے باعث صلح کی تھی’

کہانی کا اختتام

ان کے کمرے کی دیوار پر وہ آخری تصویر لگی تھی، جس کے نیچے فراز نے لکھا تھا:
“یہ کہانی ختم نہیں ہوئی، بس زندہ ہے — یہ ایک لمحہ ہے جو ٹھہر گیا ۔”

یہ بھی پڑھیں: نیدرلینڈز کے عوام کا غزہ کے شہید بچوں کے حق میں منفرد احتجاج

نوٹ

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

لکھنے کی دعوت

اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...