رشتوں کا خون

آنسوؤں کی بارش

بارش برس رہی تھی۔ کمرے کی کھڑکی کے شیشے پر بوندیں ٹک ٹک کر کے گر رہی تھیں، جیسے وقت کی دستک ہو… مگر رشید احمد کے لیے وقت کب کا رُک چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز نے مثالی گاؤں پراجیکٹ کی جلد از جلد تکمیل کیلئے ڈیڈ لائن طلب کرلی

رشید احمد کی زندگی

70 سالہ رشید جس نے زندگی بھر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایک سرکاری سکول میں اردو کے استاد رہے۔ بچوں کو غالب، میر، فیض پڑھایا، رشتوں کی مٹھاس، خلوص کی قدر، اور حق حلال کی کمائی کا سبق دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ رشتے خون سے نہیں، قربانی، احساس اور وقت دینے سے جیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ہی امن، ترقی اور انسانیت کا راستہ ہے: وزیر اعلیٰ مریم نواز

عائلتی یادیں

ان کا گھر کبھی ایک جنت تھا۔ صحن میں آم کا پیڑ، شام کی چائے، بیوی کی ہنستی ہوئی آواز، بچوں کی کھیل کود — سب کچھ مکمل تھا۔ بیوی، شمیم، نرم مزاج اور سادہ عورت تھی، جس نے رشید کے ساتھ غربت میں بھی کبھی شکوہ نہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: فرانس کا چین پر رافیل طیاروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا الزام

تعلیم اور قربانیاں

بیٹے، فہد اور جبران، اور ایک بیٹی نائلہ۔ تینوں کو انہوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ خود نیا کپڑا نہ خریدا، مگر بچوں کے لیے ہمیشہ بہترین کا انتخاب کیا۔ ہر خواہش دبا لی، بس ایک خواب تھا کہ بچے کامیاب ہوں، خوش ہوں، اور کل جب بڑھاپا آئے تو ان کی محبت چھاؤں بنے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں مستقبل قریب میں 20 ہزار نئے پولیو کیسز سے متعلق وارننگ جاری

خوابوں کی حقیقت

لیکن وقت نے دکھایا کہ خواب کبھی کبھار بدترین حقیقت بن جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بااثر افراد کا شہری پر سرعام بدترین تشدد، برہنہ کر کے گھسیٹا گیا، مقدمہ درج

تنہائی کی داستان

شمیم کے انتقال کے بعد رشید اندر سے ٹوٹ چکے تھے، مگر بچوں کے لیے زندہ رہنا ضروری تھا۔ جب ریٹائر ہوئے تو سوچا اب سکون سے وقت گزاریں گے۔ جائیداد بچوں میں برابر بانٹ دی، بغیر کسی لالچ کے۔ فہد نے بڑا بنگلہ لیا، جبران نے فلیٹ، اور نائلہ کی شادی دور کے ایک شہر میں ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: نوٹیفکیشن جاری: اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی

فاصلوں کا بڑھنا

پہلے پہل سب آتے جاتے رہے، پھر آہستہ آہستہ فاصلے بڑھنے لگے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا وہ ٹیکس جسے پیپلز پارٹی نے ماننے سے انکار کر دیا

بچوں کی ذمہ داریاں

ایک دن فہد آیا، اور بولا:
"ابو، آپ ہمارے ساتھ چلیں، مگر بس ایک دو ہفتے کے لیے، ہمارے ہاں مہمان آ رہے ہیں، آپ کو پھر جبران کے پاس جانا ہوگا۔"

جبران کے ہاں گئے، تو چند دن بعد وہ بھی شرمندہ سا کہنے لگا:
"ابو، آپ کو تو معلوم ہے، بچے بڑے ہو گئے ہیں، کمرے کم پڑتے ہیں۔ بہتر ہوگا آپ نائلہ کے پاس کچھ دن رہ لیں۔"

نائلہ، جس نے بچپن میں سب سے زیادہ باپ سے محبت کی تھی، اب اپنے سسرال میں مجبور تھی۔ شوہر تنگ دل انسان تھا، بوڑھے سسر کو ساتھ رکھنے کے حق میں نہ تھا۔ وہ بھی فون پر صرف اتنا بولی:

"ابو، دعا کیجیے حالات بدلیں… میں آپ کو لینے ضرور آؤں گی۔"

یہ بھی پڑھیں: ملکی سیاسی صورتحال، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی پی پی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا

اجنبی گھر

اور یوں رشید اپنے ہی گھر کے ایک سنسان کمرے میں رہ گیا۔ جس گھر کی بنیاد اس نے رکھی تھی، وہی اب اس کے لیے اجنبی ہو چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف مشن کا دورہ پاکستان طے، اقتصادی جائزے کے بعد نئی قسط ملنے کا امکان

یادیں اور سوالات

وقت گزرتا گیا۔ رشید خاموش ہوتا گیا۔ ایک دن آم کے پیڑ کے نیچے بیٹھے، اس نے بیوی کی تصویر کو دیکھا اور کہا:

"شمیم، ہم نے جو بیج بویا تھا، وہ سایہ کیوں نہ دے سکا؟ کیا ہم نے کچھ غلط کیا تھا؟"

یہ بھی پڑھیں: پشاور میں گھریلو جھگڑے پر ملزم نے فائرنگ کر کے والد اور بیوی کو قتل کردیا

اندھیری رات

اُس رات بارش بہت تیز تھی۔ بجلی گئی ہوئی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا، مگر رشید کی آنکھوں میں جو اندھیرا اُتر چکا تھا، وہ کسی روشنی سے ختم نہ ہو سکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے پنجاب میں ضمنی انتخابات کا نیا شیڈول جاری کر دیا

نئی امید

صبح دروازے پر دستک ہوئی۔ رشید کو یقین نہ آیا۔ کب سے تو دروازہ کوئی نہیں کھٹکھٹاتا تھا۔ جیسے ہی دروازہ کھولا، سامنے نائلہ کھڑی تھی — بھیگی ہوئی، آنکھوں میں آنسو، ہاتھ میں دوائیوں کا تھیلا، اور دل میں پچھتاوا.

"ابو... دیر ہو گئی، لیکن شاید بہت دیر نہیں ہوئی۔ میں آپ کو لینے آئی ہوں۔"

رشید اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اس کے لب ہلے:

"رشتے خون کے ہوتے ہیں، مگر جب خون بےوفائی سے آلودہ ہو جائے، تو وہ رشتے زہر بن جاتے ہیں، نائلہ۔"

نائلہ نے باپ کے ہاتھ تھام لیے:

"ابو، خون میں زہر آ جائے تو علاج ممکن ہے۔ میں وہ علاج بننا چاہتی ہوں۔"

یہ بھی پڑھیں: سردار ایاز صادق کی پاکستان کے پہلے ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ ’’ایچ ایس ون‘‘ کی خلا میں کامیاب روانگی پر قوم کو مبارکباد

محبت کی نشانی

رشید کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ برسوں بعد کسی نے اس کا ہاتھ یوں محبت سے تھاما تھا۔

شاید وہ مکمل تنہا نہیں تھا۔

شاید رشتوں کا خون ہوا تھا لیکن دل ابھی زندہ تھا۔

نوٹ

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...