میری دلی دعا ہے کہ کبھی جنگ نہ ہو، لیکن اگر جنگ ہوئی، تو وہ تباہ کن ہوگی، اور طویل چلے گی، ہوسکتا ہے کوئی مصالحت کار بھی نہ بیچ میں پڑے – ایئرچیف مارشل (ریٹائرڈ) سہیل امان
سفارتکاری اور جنگ کی ممکنہ صورتیں
کراچی (ویب ڈیسک) ایئرچیف مارشل (ریٹائرڈ) سہیل امان نے کہا ہے کہ آج کی دنیا اتنی شفاف ہے کہ بھارت اپنی ناکامی نہیں چھپا سکتا۔ ان کی دلی دعا ہے کہ کبھی جنگ نہ ہو، اور سفارتکاری کامیاب ہو۔ لیکن اگر جنگ ہوئی، تو وہ تباہ کن ہوگی اور طویل چلے گی، ہوسکتا ہے کوئی مصالحت کار بھی بیچ میں نہ آئے۔
یہ بھی پڑھیں: نجم سیٹھی نے ایشیاء کپ کے معاملے پر محسن نقوی سے ملاقات کی اندرونی کہانی بیان کر دی
تیاری کی اہمیت
ایکسپریس کے مطابق، کراچی میں دو روزہ فیوچ سمٹ کے آخری سیشن سے خطاب کرتے ہوئے، پاک فضائیہ کے سابق سربراہ نے کہا کہ دشمن نے بھی اپنے سبق سیکھ لیے ہوں گے اور بدلہ لینے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ تیاری میں ہی امن اور خوشحالی ہے۔ اب وقت ہے کہ فوج، بحریہ، اور فضائیہ ایک مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں کیونکہ اب سب کچھ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پر منحصر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ کا سیکیورٹی آڈٹ کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ کا اہم دورہ
فضائی طاقت کی اہمیت
انہوں نے کہا کہ ایئر پاور سیاسی مقاصد کے لیے سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ ایک گھنٹہ، دس منٹ کی لڑائی میں سات جہاز گرائے جا سکتے ہیں۔ یہ ایئر پاور کا اثر ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے پاک فضائیہ نے بیس سال لگائے۔ یہ اتنا آسان نہیں۔ سب سے اہم چیز ذمہ داری اور ملکیت کا احساس ہے۔ پاک فضائیہ نے سمجھ لیا تھا کہ ہر جنگ کا آغاز فضا سے ہوگا۔ ہر فورس کا اپنا کردار ہے، مگر فضائی طاقت سب سے اہم اور فوری اثر ڈالنے والی قوت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان کھلاڑیوں کو ہار برداشت نہ ہوئی، پاکستانی پلیئرز کی خلاف بد زبانی، میچ ریفری کو شکایت کی تو۔۔۔ کیا نتیجہ نکلا؟ جانیے
اداروں کی ضرورت
فضائیہ نے ادارے بنائے، پچھلے فیصلوں کا احترام کیا، پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا۔ ہر نئی قیادت نے پرانی پالیسیوں کو آگے بڑھایا، اور یہی تسلسل ترقی کی بنیاد بنا۔ ہمیں ادارے بنانے ہوں گے انہیں کمزور یا تباہ نہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی پولیس کی لیبارٹری سے فرار ہونے والے 43 ‘شرارتی’ بندروں کی تلاش
جغرافیائی چیلنجز
دنیا پانچ دہائیوں میں یک قطبی سے کثیر قطبی میں تبدیل ہوگئی مگر اس تبدیلی نے دنیا کو امن یا خوشحالی نہیں دی، بلکہ جنگ دی۔ اب جب مختلف طاقتیں سامنے آ رہی ہیں، پاکستان دنیا کے سب سے اہم جغرافیائی مقام پر واقع ہے۔ آج کے دور میں سفارتکاری کی جو ضرورت ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے بھارت کے دراصل کتنے رافیل طیارے گرائے ہیں؟ نئے اعداد و شمار سامنے آ گئے
سعودی عرب اور یمن کا فیصلہ
سہیل امان نے کہا کہ ہمیں چین اور مغرب کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا، تاکہ ہم اپنے حقیقی دوستوں کی شناخت کر سکیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فیصلے قومی مفاد میں کریں، کسی دوسرے کے ایجنڈے کے تحت نہیں۔ ہم نے دوسروں کی جنگیں لڑیں اور خطے کو غیر مستحکم کر دیا۔ خاص طور پر ایک اہم موقع پر جب یمن جانے کا فیصلہ کرنا تھا، ہمارے دوست سعودی عرب و یو اے ای سب متوقع تھے، لیکن پاکستان نے دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ ہم کسی اور کی جنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔ یہی فیصلہ صحیح تھا۔
اندرونی بدامنی کے اثرات
سہیل امان نے کہا کہ اندرونی بدامنی اور دہشت گردی کا سلسلہ بھارت افغانستان گٹھ جوڑ سے مزید بڑھا، تو ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ ایسی صورت میں وسائل ضائع ہوتے ہیں، معیشت متاثر ہوتی ہے، اور حکومت عوام کی خوشحالی یقینی نہیں بنا سکتی۔ اسی لیے سفارتکاری کو مؤثر ہونا چاہیے، تاکہ خطے میں درجہ حرارت کم کیا جا سکے۔ یہ آسان کام نہیں، بلکہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔








