شام تک بہت کھیلے، جذبات اس قدر عروج پر تھے کہ ہم دوپہر کا کھانا بھی بھلا بیٹھے، دور بیٹھی میری بیگم یہ بچگانہ حرکتیں دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی۔

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 302

بہرکیف اس رسم کو پورا کرنے کے لیے جلدی میں ہاتھ سے ہی دھکیل کر انجن اور گاڑیاں چلائیں، انگلی سے سگنل ڈاؤن کیا اور باقی سب فرض کر لیا کہ ہر چیز ٹھیک اور پروگرام کے مطابق ہی کام کر رہی تھی۔ شام تک میں اور عبداللہ اس سے بہت کھیلے۔ اپنے اس لطف کو انتہاؤں تک پہنچانے کے خاطر میں نے ٹم وارنر کی دی گئی ریلوے ڈرائیور کی سیاہ پی کیپ بھی پہنی جو مجھ پر ذرا بھی نہیں جچ رہی تھی کیونکہ میں نے نیچے شلوار قمیص اور چپل پہنی ہوئی تھی۔

بجلی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے انجن کی سیٹی بھی نہیں بج رہی تھی، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں نے اور عبداللہ نے باری باری منہ سے وسل بجا کر کسی نہ کسی طرح یہ شرط بھی پوری کر لی تھی۔ جب انجن اور گاڑی کی گڑگڑاہٹ کی آواز نہ نکلی تو میں نے اس کے بغیر ہی جینا سیکھ لیا تھا۔ جذبات اس قدر عروج پر تھے کہ ہم دوپہر کا کھانا بھی بھلا بیٹھے تھے۔ اور دور بیٹھی میری بیگم میری یہ بچگانہ حرکتیں دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی۔

میز خالی کرنے کا حکم

پھر اگلے دن سہ پہر کو جب میں اکیلا ہی ان سرگرمیوں میں مشغول تھا، میری اہلیہ نے دھونس اور دھاندلی سے یہ کہہ کر کہ رات کو کچھ مہمان کھانے پر آ رہے ہیں، فوراً میز خالی کرنے کا حکم جاری کردیا۔ یہ وہ پہلا اور آخری دن تھا جب میں اس ریل گاڑی سے کھیلا تھا۔ دل ابھی بھرا ہی نہیں تھا، لیکن اب اس ریلوے کمپنی کو فعال رکھنے کے لیے مجھے اس دوڑتی ہوئی شے اور مسلسل بولتی ہوئی بیوی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا، لہٰذا میں نے گھر والی کو ہی چن لیا۔

بجھے دل کے ساتھ سارا سامان ادھیڑا اور اکٹھا کر اسے ایک بار پھر ڈبوں میں بند کر کے رکھ دیا، اور یوں میری ذاتی ریل کہانی ختم ہوئی۔ عظیم الشان ”سعید ریلویز“ افتتاح کے محض ایک دن بعد ہی دیوالیہ ہو کر پِٹ گئی۔

یادیں اور حقیقت

اب پچھلے کئی برس سے وہ سارا ریلوے کا نظام بڑے سے 2 کارٹنوں میں بند، سٹور میں پڑا ہوا ہے۔ ان کو بھی اب تک اپنے نہ ہونے کا یقین ہو گیا ہو گا۔ یہ ننھی منی سی گاڑی بھی کیا یہ نہ سوچتی ہو گی کہ اس کی ملکیت کیسی تھکی ہاری ریلوے کمپنی کو سوپنی دی گئی تھی جو پوری طرح چلنے سے پہلے ہی ناکام ہو گئی۔

میری اس ریل گاڑی پر کئی بچوں نے بْری نظر رکھی ہوئی تھی لیکن میں نے کسی کو اس کے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا، اس کو بند ہی رہنے دیا۔ نہ اس کو کسی کو تحفے میں دیا اور نہ ہی اس سے کوئی کھیل سکا۔ ہاں میں خود ہی کبھی کبھار یہ ڈبے کھول کر بیٹھ جاتا ہوں اور اسے دیکھ کر ماضی کی حسین یادوں میں گم ہو جاتا ہوں اور بس۔ میرا یہ ریلوے سسٹم 25 سال گزرنے کے باوجود ویسے کا ویسا ہی بند پڑا ہے۔

ماڈل ریلوے

اب جب کہ ننھی منی ماڈل ریلوے پر بات چل ہی نکلی ہے تو کیوں نہ اس کی تھوڑی سی تفصیل بتا کر اس کو بھی اس کتاب کا حصہ بنا دیا جائے۔ میری طرح مغربی ملکوں میں ریل کے دیوانوں کی کمی نہیں ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تو یہ حال ہے کہ بچے کرسمس پر اپنے والدین سے جس تحفے کی سب سے زیادہ توقع رکھتے ہیں وہ ننھی منی سی ریل گاڑی ہی ہوتی ہے۔ اور پھر جب وہ انھیں مل جاتی ہے تو سب کچھ بھول کر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں، وہیں رہائشی کمرے میں اس کی پٹریاں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر انھیں دن رات کا احساس ہی نہیں رہتا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...