کمبخت چیز ہی ایسی ہے کہ بزرگ بھی قربت میں رہنا چاہتے ہیں، دیکھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے، تیاری میں چھوٹی سی چھوٹی تفصیل کا خیال رکھا جاتا ہے۔
مصنف:
محمد سعید جاوید
یہ بھی پڑھیں: پاک بحریہ کی کمانڈ اینڈ سٹاف کانفرنس کا نیول ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں انعقاد، ایڈمرل نوید اشرف نے صدارت کی
قسط:
303
یہ بھی پڑھیں: سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، فتنہ الخوارج کے 47 دہشتگرد جہنم واصل، دہشتگردوں کا تعلق کس ملک سے تھا، لاشیں کیسے اور کب اٹھائی گئیں؟ اہم تفصیلات سامنے آ گئیں
ریلوے کا عشق
لیکن یہ ریل گاڑی کمبخت چیز ہی ایسی ہے کہ بڑی عمر کے حتیٰ کہ بزرگ بھی ہر وقت اس کی قربت میں رہنا چاہتے ہیں۔ خصوصاً وہ بوڑھے جنھوں نے کبھی اس محکمے میں ملازمت اختیار کی تھی، وہ تو اس کو بھلا ہی نہیں پاتے۔ ان کی بات ریل گاڑی سے شروع ہوتی ہے اور پھر وہیں قائم رہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف جانے کی کوشش میں بھارتی انتہاپسند مظاہرین گرفتار
ماڈل ریلوے کی تفصیلات
اپنے شوق کی تکمیل میں آنگن میں چھوٹی بڑی پٹریاں بچھا کر ان پر رنگ برنگی گاڑیاں دوڑاتے رہتے ہیں۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ سارا نظام انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے ہی اس نفاست اور باریکی سے بنایا ہوا ہوتا ہے کہ دیکھنے والا بھی عش عش کر اٹھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 7 دوستوں کا 15 سال پرانا خواب پورا، برطانیہ کا سب سے قیمتی خزانہ دریافت
تفصیلات کی باریکی
اس کی تیاری میں ہر قسم کی چھوٹی سی چھوٹی تفصیل کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک پورا اور منظم چھوٹے پیمانے پر بنایا گیا ریلوے سسٹم ہوتا ہے، جس میں ریلوے میں استعمال ہونے والی ہر چیز کی نقل تیار کر کے انھیں اسی انداز میں نصب کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نور خان بیس پر حملے کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے، پاکستان زندہ باد کے نعرے
پٹریاں اور گاڑیاں
ماڈل ریلوے میں، سب سے پہلے پٹریاں بچھائی جاتی ہیں اور مختلف اقسام کے انجن، بوگیاں، مال گاڑی کی ویگنیں، اسٹیشن کی عمارتیں، پلیٹ فارم، اسٹیشن کے ارد گرد سڑکیں اور ان پر دوڑتی پھرتی گاڑیاں سب کچھ ہی تو بنا لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی ترقی پر فخر ہے، برادر ملک کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہیں گے: ترک قونصل جنرل
روایتی ریلوے اسٹیشن
ان ساری سرگرمیوں کا مرکز تو روایتی ریلوے اسٹیشن کی عمارت ہوتی ہے، حتیٰ کہ اس میں کلاک ٹاور، ٹکٹ گھر، انتظار گاہیں، پانی کی ٹینکیاں، کوئلے کے گودام، سگنل کیبن، پیدل چلنے والوں کے لیے پل، لیول کراسنگ، پلیٹ فارم پر سامان تولنے والی مشینیں اور ٹھیلے، گویا ہر چیز تو وہاں رکھ دی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا ڈی ایچ کیو ہسپتال پاکپتن کے ایم ایس کیخلاف سخت ایکشن، گرفتار کرنے کا حکم
طبیعت کی خوبصورتی
بچھائی گئی ان طویل پٹریوں کے آس پاس قدرتی منظر نگاری کے لیے، جنگل، پہاڑ، سرنگیں، آبشاریں، یہاں تک کہ آس پاس گاؤں بسا کر ان میں روزمرہ کی سرگرمیاں، ٹریکٹر ٹرالیاں، مویشی اور دوسرے گھریلو جانور بنا دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کے بعد اب موٹر سائیکلوں کے لیے بھی فٹنس سرٹیفکیٹ لازمی قرار
بھاپ کی گاڑیوں کی کشش
ابھی تک زیادہ تر لوگوں کو سٹیم انجن والی گاڑیاں ہی پر کشش لگتی ہیں۔ ہرچند کہ کچھ لوگ ڈیزل اور الیکٹرک انجن کے ماڈل بھی بناتے ہیں لیکن 200 برس بیت جانے کے باوجود بھاپ سے چلنے والی گاڑی کی یاد ان کے ذہن سے محو نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: پاک فوج کی شمالی وزیرستان اور کرم میں بڑی کارروائی، “فتنہ الخوارج” کے 25 دہشت گرد ہلاک، 5 جوان شہید
مختلف ماڈل کی اقسام
عموماً 3 طرح کے ریلوے ماڈل انجن اور گاڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ جو بہت بڑی جسامت میں بنتی ہیں، اتنی بڑی کہ اس کی پٹری سیکڑوں میٹر پر محیط ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ، سعودی عرب سے پروازوں کی اوور فلائنگ دگنی ہوگئی
انجن کی طاقت
ان کا انجن اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ نہ صرف اپنے پیچھے آتی ہوئی درجن بھر بڑی بڑی بوگیوں کو کھینچ لیتا ہے بلکہ انجن کے اوپر چڑھ کر بیٹھا ہوا اْس کا ہٹا کٹا مالک بھی مفت میں سفر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی بورڈ نے 34 کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دیدیا، کس کو کتنا معاوضہ ملے گا؟ جانیے
بگڑتے انجن کا مزہ
یہ اصلی انجن کا قدرے چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے جس میں لائٹر والی گیس سے کوئلے جلا کر پانی ابالا جاتا ہے۔ جب بھاپ بن جاتی ہے تو اس کے کل پرزے مروڑ کر اس کو چلنے پر مجبور کرتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ:
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








