ہومبرگ کے ریلوے میوزیم میں ماڈل گاڑیوں کا سب سے بڑا نظام، دنیا بھر سے ریل کے شوقین خصوصی طور پر دیکھنے کے لیے پہنچتے ہیں
مصنف
محمد سعید جاوید
یہ بھی پڑھیں: لاہور سے جدہ جانے والی پی آئی اے کی پرواز پرندہ ٹکرانے کے بعد کراچی میں اتار لی گئی
قسط
305
یہ بھی پڑھیں: میکسیکو میں ڈرگ مافیاز کے درمیان لڑائی جاری، 192 افراد ہلاک
ماڈل ریلوے کی تعمیر
آپ کو ہارڈ بورڈ اور پلاسٹک کی بنی ہوئی عمارتیں، پل، سگنل وغیرہ بھی مل جائیں گے۔ ہارڈ بورڈ پر بنی ہوئی چیزوں کو کاٹ کر علیٰحدہ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی ہدایت پر عمل کر کے انھیں ایک خاص انداز میں موڑ کر عمارت کی شکل بنا کر گوند سے چپکا لیا جاتا ہے، اور یوں وہ عمارت دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے ہاتھوں میں ہی تعمیر ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کی اپیل پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس آج ہی طلب
انجن کی خصوصیات
انجن جو ذرا زیادہ قیمتی ماڈل کے ہوتے ہیں، وہ اپنی چمنی سے دھویں کے مرغولے بھی نکالتے ہیں۔ اس کی ایک مخصوص جگہ پر ایک خاص قسم کا تیل ڈالا جاتا ہے جو بجلی کی حرارت سے گرم ہونے کے بعد دھواں بناتا ہے، جو چمنی سے مرغولوں کی شکل میں خارج ہوتا رہتا ہے۔ اسی بجلی سے اسٹیشن کی مختلف عمارتوں اور سگنل کی روشنیاں بھی چلتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گووندا اچھے بیٹے اور بھائی تو ہیں لیکن خاوند نہیں، اگلے جنم میں شوہر کے طور پر نہیں چاہتی‘بیوی سنیتا
ماڈل ریلوے کی تاریخ
ماڈل ریلوے کا آغاز تو کوئی سو برس قبل یعنی 1912ء میں ہی ہو گیا تھا، جب اس وقت کے مہان کاریگروں نے انجنوں اور ریل گاڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ماڈل بنا کر انھیں پٹریوں پر چلا کر داد سمیٹی۔ اس کے بعد تو یہ ماڈل گھر گھر بننے لگے اور آپس میں کاریگروں کے خوب مقابلے بھی ہوئے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ فٹ بال اور کرکٹ کی طرح ان کے بھی کلب بن گئے، جن کے نہ صرف آپس میں میچ پڑتے تھے بلکہ اس محفل میں اپنے اپنے تجربات کا اشتراک بھی کیا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں تقرر و تبادلے
دنیا کا سب سے بڑا ماڈل ریلوے نظام
اب تک کا ماڈل گاڑیوں کا سب سے بڑا نظام جرمنی کے شہر ہمبرگ کے ریلوے میوزیم میں ہے۔ 1500 مربع میٹر پر پھیلا ہوا یہ منصوبہ اتنا شاندار ہے کہ ساری دنیا سے ریل کے دیوانے خاص طور پر اسے دیکھنے کے لیے وہاں پہنچتے ہیں۔ اس کی سیکڑوں پٹریوں کی مجموعی لمبائی 15 کلومیٹر بنتی ہے جن پر ایک ہزار سے زیادہ مختلف اقسام کی ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ اس میں دنیا کی مشہور عمارتوں، سٹیڈیم، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں، موٹروے، پہاڑ، جھیلیں، گاؤں غرض ہر طرح کے ماڈل بنائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی محتسب نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کے خلاف شکایات کا نوٹس لے لیا
کھلونے اور انسانی مجسمے
اڑھائی لاکھ کی تعداد میں مختلف اشکال کے مختلف کاموں میں مشغول نظر آنے والے چھوٹے چھوٹے انسانی مجسمے بھی نصب کئے گئے ہیں، جن میں سے کچھ تو باقاعدہ حرکت بھی کرتے ہیں۔ گردو نواح کی سڑکوں اور گلی محلوں میں 9,200 گاڑیاں، ٹرک، بسیں اور ایمبولینس وغیرہ بھی موجود ہیں، جن میں سے اکثر حرکت میں رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کیخلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر آئی جی اسلام آباد ودیگر کو نوٹس جاری
ہوائی اڈے اور روشنی
ہوائی اڈوں پر مختلف ملکوں کی کمپنیوں کے 40 سے زیادہ جہاز مصروفِ کار نظر آتے ہیں، جو باقاعدہ ٹیکسی کرتے ہوئے آتے ہیں اور پرواز یا لینڈنگ بھی کرتے ہیں۔ اور ہاں، پٹریوں کے آس پاس سوا لاکھ سے زیادہ چھوٹے چھوٹے درخت اور جھاڑیاں لگا کر اگا رکھی ہیں۔ منصوبے میں شامل 4,000 سے زیادہ عمارتوں، ریلوے اسٹیشنوں، آس پاس کے علاقوں اور دیہاتوں کو روشن رکھنے کے لیے 4 لاکھ کے قریب LED روشنیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








