آپ مسلمان ہیں یا ہندو…یا آدھے مسلمان اور آدھے ہندو
مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 215
یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمان کی ہدایت پر جے یو آئی نے حکومتی آئینی ترامیم پر پارٹی پالیسی واضح کر دی
کالج لائف اور رضاکارانہ کام
راقم کو اپنی کالج لائف اور یوتھ موومنٹ میں رضاکارانہ کام کرتے ہوئے کئی ورک کیمپوں میں شمولیت کرنے کا موقع مل چکا تھا۔ لہٰذا، میں نے فوراً دریائے گنگا صفائی مہم کے ضمن میں ورک کیمپ کرنے کے حق میں اپنے فیصلہ سے انہیں آگاہ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس مظلوم لوگوں کےلئے امید کی کرن بن رہا تھا، عدالتی سٹے آرڈر افسوسناک اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے،خواجہ سعد رفیق
صحافیوں کے سامنے فیصلہ
گنیش کمار ڈکشٹ نے کھڑے ہو کر صحافیوں کو ہمارے فیصلے سے آگاہ کیا تو حاضرین نے تالیاں بجا کر ہمارے فیصلے کی تحسین کی۔ میں نے کانپور کے وکلاء کا شکریہ ادا کر کے انہیں رخصت کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور مصر دہشت گردی کے خلاف متحد، دفاعی و معاشی شراکت داری پر اتفاق
شخصیات اور گفتگو
ظفر علی راجا کے علاوہ باقی سب ارکان کو اپنے کمروں میں جا کر آرام کرنے کی ہدایت کی۔ ظفر علی راجا کو ایک نوجوان بھارتی صحافی اخبار "امر اجالا" کے نمائندے رضا شاستری کے حوالے کر دیا۔ راجا صاحب نے رضا شاستری سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہی سوال جڑ دیا کہ "رضا بھی اور شاستری بھی؟ آپ مسلمان ہیں یا ہندو...یا آدھے مسلمان اور آدھے ہندو؟"
یہ بھی پڑھیں: خیبر: انسداد منشیات آپریشن جاری، 10 ماہ کے دوران ڈیڑھ ہزار کلو سے زائد منشیات برآمد
باقی تفصیلات
اس سوال پر اس نے بتایا کہ اس نے اپنے نام کے ساتھ شاستری کا لفظ "جیسا دیس ویسا بھیس" کے مصداق لگا رکھا ہے، جبکہ اس کا اصل نام سید محمد رضا تھا۔ انٹرویو کے سلسلے میں رضا شاستری کے زیادہ تر سوالات دہشت گردی سے متعلق نکلے۔ اکتوبر 2008ء میں بدنام زمانہ تاج محل ہوٹل بمبئی خود ساختہ حملوں کے بعد سے بھارت کا میڈیا اسی موضوع کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور ہر پاکستانی سے "اعتراف جرم" کروانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں ایم ڈی کیٹ کے عبوری نتائج کا اعلان، 38 ہزار سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا تھا
گفتگو کا محور
اس دوران جب راجا صاحب رضا شاستری کے ساتھ محوگفتگو تھے، راقم دوسرے 2 صحافیوں جن کا تعلق روزنامہ "جاگرن" اور "ہندوستان دینک" سے ہے، دو دو ہاتھ کرنے میں لگا ہوا تھا۔ بھارتی میڈیا کے ساتھ ہماری گفتگو کا ماحصل یہ بتانا مقصود تھا:
- دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ خود پاکستان ہے، جبکہ ایک منظم اور مربوط بھارتی و امریکی پروپیگنڈے کے تحت پاکستان کو ہی دہشتگردی کا سرپرست ثابت کرنے کی کوشش جاری ہے۔
- پاکستان و افغانستان میں دہشت گردی کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو دہشت گردی کی ذہن سازی، تربیت، دہشت گردوں کو جدید ترین اسلحہ کی فراہمی اور کثیر مالی امداد ہر مرحلے پر امریکہ و بھارت کی سرپرستی اور عملی شمولیت آسانی سے ثابت کی جا سکتی ہے۔
- گزشتہ سالوں میں بھارت نے افغان پاکستان سرحد کے ساتھ متعدد بھارتی کونسل خانے پاکستان کے اندر دہشت گردی کروانے کے لیے قائم کئے ہیں۔ پاکستانی تحقیقاتی ایجنسیوں کو یقین ہے کہ امریکہ اور بھارت ان مراکز کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے غریب افراد کو دہشت گردی کی جدید ترین تکنیک سے مسلح کر کے پاکستان میں بھیج رہے ہیں۔
- امریکہ و بھارت کو چین کی بڑھتی ہوئی معاشی و دفاعی کامیابیاں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ بھارت کو پاکستان کی مبینہ دہشت گردی سے بچانے کا لالچ دے کر "ایک بڑا ملک" بھارت کو اپنے اسلحے کی منڈی میں تبدیل کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








