حقوق العباد کی سخت پو چھ گچھ ہے، یہاں کی گئی زیادتیوں کی معافی اسی انسان کے پاس ہے جو نشا نہ بنا ہو، اللہ کا اپنا نظام ہے جس پر صرف اسے ہی قدرت ہے
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 348
اللہ کا اپنا نظام
حقوق العباد ہی وہ حقوق ہیں جن کی سخت پوچھ گچھ ہے۔ یہاں کی گئی زیادتیوں کی معافی اسی انسان کے پاس ہے جو زیادتی کا نشانہ بنا ہو۔ اللہ نے اس سلسلے میں معاف کرنے کا اپنا اختیار مظلوم کو تفویض کر دیا ہے۔وہ شخص جس کو قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی، جس کی نماز جنازے میں شرکت کے لئے لوگوں کو روک دیا گیا۔ رات کے اندھیرے میں گنتی کے چند افراد نے نماز جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا گیا۔ آج اُس کا مزار زیارت خواص و عام ہے۔ دوسری طرف مومن صدر ہزاروں لیٹر پٹرول میں جل گیا۔ لاش بھی نہ ملی۔ اُس کا مزار اس جوگن کی کٹیا کی طرح ہے جو بقول ساحر لدھانیوی "سر راہ ہوتے ہوئے بھی آنے والوں کو ترستی ہے۔" اللہ کا اپنا نظام ہے جس پر صرف اسے ہی قدرت ہے۔ وہی جانتا ہے کون کیا تھا اور کیا ہے؟
مومن صدر کا واقعہ
مومن صدر کا ایک اور واقعہ بھی سنا دوں۔ میرے چچا ڈاکٹر جاوید رشید ملک پنجاب انسٹٹیوٹ آف کارڈیالو جی سے ایم ایس ریٹائر ہوئے۔ انہیں ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن میں کارنر پلاٹ قرعہ اندازی میں الاٹ ہوا۔ جس پر مومن صدر کے ایم ایس (ملٹری سیکرٹری) کی نظر پڑ گئی۔ اس نے ضیاء سے اس پلاٹ کے لئے سفارش کرائی اور ایل ڈی اے کے چیئرمین (جنرل انصاری، اچھے انسان تھے) پر اتنا دباؤ ڈالا کہ انہیں میرے چچا سے کہنا پڑا؛ "ڈاکٹر صاحب! اس پلاٹ کی جگہ آپ دوسرا کوئی بھی پلاٹ لے لیں۔" بعد میں انہیں "16 این" الاٹ ہوا تھا۔ ایک طرف پارسائی اور مسلمانی کے دعویٰ اور دوسری طرف دوغلا پن۔
دھول سے پھول
جنرل پرویز مشرف نے جس طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا اور اس "ایکشن کا ری ایکشن" یعنی رد عمل ہوا، اُس کا اندازہ شاید جنرل مشرف کو بھی نہ تھا۔ کہتے ہیں اُن سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والوں میں سے ایک جنرل جاتے ہوئے اُن کا ہاتھ دبا گیا تھا۔ لنکا ہمیشہ گھر کا بھیدی ہی ڈھاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق ایسے کرداروں سے بھرے ہیں۔ اگلی بات سنانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ جنرل پرویز مشرف نے جو الزامات افتخار چوہدری پر لگائے تھے ان میں سے بعض حقیقت پر مبنی تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ افتخار چوہدری ان الزامات سے بچ نکلے تھے۔ کچھ تو میرے علم میں بھی تھے۔
مثلاً چیف جج ایم ایم عالم روڈ پر واقع ریسٹورنٹ میں اکثر sponsored کھانا کھانے آتے اور ان کے میزبان انہیں "کہیں ہونے والے زمین پر" قبضے یا کسی شکایت کی اطلاع کرتے اور وہ شوق و ذوق سے "سو موٹو" لیتے۔ ایک شام میں اور مشہود بھی اسی شاہراہ پر واقع جی سیون کے ریسٹورنٹ میں تھے۔ ہمارا میزبان واسق قریشی (اس شریف انجینئر پر پیسہ ایسے عاشق تھا جیسے جوانی میں ہم مادھو بالا کے عاشق تھے) تھا۔ ٹی ایم او گلبرگ ٹاؤن علی عباس بخاری بھی وہیں ملا۔ اُس سے اچھی سلام دعا تھی۔ (یہ ذمہ دار، بڑا سوشل، ملنسار، خوش لباس اور زندہ دل افسر تھا۔ چہرے کی مسکراہٹ اُس کا ٹریڈ مارک تھی۔) میں نے پوچھا؛ "علی؛ کوئی نئی خبر اخبار۔" کہنے لگا؛ "سر! تقریباً ہر ویک اینڈ پر چیف جسٹس ایم ایم عالم روڈ کے ریسٹورنٹ پر تشریف لاتے ہیں۔" (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








