ججز کے استعفے کئی حوالوں سے غیر آئینی اقدامات کہے جا سکتے ہیں، وزیر مملکت برائے قانون
ججز کے استعفے پر وزیر مملکت کا ردعمل
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے مستعفی ہونے پر ردعمل میں کہا ہے کہ ججز کا استعفیٰ دینا ان کا حق ہے لیکن خطوط میں یہ لکھنا کہ عدلیہ پر حملہ ہے یہ سراسر غلط ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جج جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اور اسرائیل کی جنگ کے دوران امریکہ اور ایران کے خفیہ رابطے، رائٹرز کا دعویٰ
استعفے کا پس منظر
اپنے استعفے میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر سنگین حملہ ہے، 27 ویں آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین، جس کی پاسداری کا میں نے حلف لیا تھا، اب موجود نہیں رہا، خود کو یہ یقین دلانے کی کتنی ہی کوشش کروں، حقیقت یہی ہے کہ آئین کی روح پر حملہ ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ، لبنان، شام، ایران یا یمن، اسرائیل بین الاقوامی قانون کی حدود سے باہر کام کر رہا ہے: عاصم افتخار
غیر آئینی الزامات سے متعلق بیان
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل نے مزید کہا کہ ججز کا استعفیٰ دینا ان کا حق ہے، لیکن خطوط میں یہ لکھنا کہ عدلیہ پر حملہ ہے یہ غیر آئینی الزام ہے۔ اگر ان کا کوئی گلہ ہے تو وہ چیف جسٹس سے بات کر سکتے تھے۔ پہلے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا، جب پارلیمان نے اپنا حق استعمال کیا تو استعفیٰ آگیا، یہ استعفے کئی حوالوں سے غیر آئینی اقدامات کہے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار بنگلہ دیش کے دورے پر روانہ
پارلیمان کے اختیار کا دفاع
وزیر مملکت برائے قانون نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اداروں کے درمیان تصادم یا کوئی لڑائی والی بات ہے، یہ پارلیمان کا استحقاق ہے کہ وہ آئینی ترامیم اور قانون سازی کرے۔ اداروں کی حدود کا تعین واضح ہے۔ بیرسٹر عقیل نے کہا کہ سپریم کورٹ اسی آئین کے تحت بنی اور ترمیم سے یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ یہ کسی کے خلاف ہے، سپریم کورٹ سے متعلق بھی آئینی ترمیم یا قانون سازی پارلیمان ہی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران پر اسرائیلی حملوں میں 6 سائنسدان شہید ہوئے، ایرانی میڈیا
آئین میں تبدیلی کی اجازت
وزیر مملکت برائے قانون کا کہنا تھا کہ آئین بذات خود اجازت دیتا ہے کہ آپ اس میں تبدیلی کر سکتے ہیں، اور جب ترامیم کریں یا آئین کے مطابق آگے بڑھیں تو اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت میں سیاسی کھیل کھیلا گیا، جو افسوس ناک تھا، اور آپ کو قانون و انصاف کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: کے پی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کا الیکشن کمیشن کا اعلامیہ کالعدم قرار
فل کورٹ کی تشکیل
بیرسٹر عقیل نے مزید کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ فل کورٹ استعفوں کے معاملے پر بلائی گئی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ فل کورٹ میں کیا ہوگا یا کس معاملے پر بلائی گئی ہے، لیکن بطور پاکستانی شہری اور ممبر اسمبلی مجھے عدالتوں پر مکمل اعتماد ہے، اور میں امید کرتا ہوں کہ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق ہی آگے بڑھیں گی۔
پارلیمان کی قانونی حیثیت
وزیر مملکت برائے قانون نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پارلیمان قانون سازی نہیں کرسکتا تو انہیں دوبارہ سے آئین سے رجوع کرنا چاہیے۔ آئین پاکستان میں واضح طور پر یہ استحقاق پارلیمان کا ہے۔








