ججوں کا کام ٹکر بنوانا، کسی کو رسوا کرنا یا ڈانٹا نہیں بلکہ انصاف دینا ہے، پرویز رشید
پرویز رشید کا بیان
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر پرویزرشید نے کہا ہے کہ ججوں کا کام ٹکر بنوانا، کسی کو رسوا کرنا یا ڈانٹا نہیں بلکہ انصاف دینا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک روس دو طرفہ تعلقات میں اہم پیشرفت، روسی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان متوقع
استعفیٰ دینے والے ججوں کا موقف
نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پرویز رشید نےکہا کہ صرف 2 ججز نے استعفیٰ دیا اور ان کا اعتراض ہے کہ آئین کوختم کردیاگیا، سپریم کورٹ کے ٹکڑےکردیےگئے تاہم کسی دوسرےجج نےان کی اس بات کوتسلیم نہیں کیا اور اپنے کام کو جاری رکھنا مناسب سمجھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غریب محض عید پر جبکہ اڈیالہ کا قیدی روز گوشت کھاتا ہے، لہٰذا ایک قیدی کی فکر چھوڑ دیں: عظمٰی بخاری
آئین اور سپریم کورٹ کی صورتحال
انہوں نے کہا کہ اس سے یہ نتیجہ نکلتاہےکہ نہ آئین کونقصان پہنچا اور نہ ہی سپریم کورٹ کو ٹکڑوں میں تقسیم کیاگیاہے، صرف دو لوگوں کی کہی بات پر نہیں کہہ سکتےکہ کوئی تحریک چل جائےگی۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا ایران پر اسرائیلی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار، فریقین سے تحمل کی اپیل
پارلیمنٹ کا آئینی حق
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم کاحق پارلیمنٹ کو ہے، یہ ہمارا آئینی حق ہے، خود سپریم کورٹ کے ججز بھی آئین کی پیداوار ہیں، کیا یہ دو جج حضرات یہ کہہ رہے ہیں کہ صرف وہ مقدمے سنیں گے جس میں ہمارے سامنے سرکاری اہلکار، منتخب نمائندے ہوں اور ہم ان کی تذلیل کریں، تضحیک کریں، رسوا کریں، جیلوں میں بھیجیں اور نااہل قرار دےدیں۔
یہ بھی پڑھیں: دریائے سوات میں پھنسے خاندان کی مدد کے لیے ریسکیو کی پہلی گاڑی کتنی دیر میں پہنچی؟
انصاف کی تقسیم کا عمل
پرویز رشید نے مزید کہاکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں قتل، زمین پر قبضے، شہری سے ناانصافی کا مقدمہ نہیں سنوں گا، اعلیٰ عدالت میں بیٹھ کر ہر شہری کو انصاف دینا آپ کا ذمہ ہے، آپ کے ذمہ یہ کام نہیں ہے کہ ٹی وی کے ٹکر بنوانے ہیں، آج فلاں کو ڈانٹ دیا، فلاں کو رسوا کیا، آپ صرف یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے
ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ہوئی ہے، خود پی ٹی آئی کے کسی رکن نے اس ترمیم کے خلاف ووٹ نہیں کیا، سینیٹ میں 64 اراکین نے کھڑے ہوکر ووٹ دیا، اختلاف میں کوئی کھڑا نہیں ہوا، کسی نے اختلاف نہیں کیا تو یہی کہیں گے کہ ترمیم اتفاق رائے سے کردی گئی ہے جب کہ کل جو ترمیم ہوئی اس سےصرف 3 لوگوں نے اختلاف کیا جو جے یو آئی کےتھے۔








