مغلپورہ ورکشاپ میں 24 گھنٹے کام ہوتا ہے، آج سے 74 سال پہلے انگریز اس ورکشاپ کو جس حالت میں چھوڑ کر گیا تھا آج بھی تقریباً ویسی ہی ہے۔
مصنف کی معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 309
یہ بھی پڑھیں: میئر نیو یارک کے بھارتی نژاد امیدوار نے مودی کو جنگی مجرم قرار دے دیا
ورکشاپ کی اقسام
سپرنگ شاپ میں بوگیوں اور انجنوں میں استعمال ہونے والے مختلف قد کاٹھ اور ناپ کے بھاری اور مضبوط سپرنگ اور شاک ابزارور بنائے جاتے ہیں۔
پاور پلانٹ والی شاپ میں انجنوں کی طاقت کو جانچا جاتا ہے اور اس میں ضروری ردو بدل کیا جاتا ہے تاکہ ان میں کم ایندھن استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کی جاسکے۔
وہیل شاپ میں بوگیوں اور انجنوں کے پہیوں اور ایکسل کی دیکھ بھال، مرمت یا تبدیلی کی جاتی ہے۔
لفٹ شاپ میں وزنی گاڑی یا اس کے پرزوں کو اوپر اٹھا کر ان کے نیچے کام کرنے کی سہولت ہوتی ہے۔ یہ کام صرف یہیں ہو سکتا ہے۔
ٹول شاپ بھی اپنی جگہ بہت اہم ورکشاپ ہے، جہاں گاڑیوں کی دیکھ بھال اور مرمت کرنے والے ہر طرح کے اوزار اور آلات بنائے جاتے ہیں۔ یہاں پر بڑی تعداد میں گاڑی کے ڈبوں میں، کھڑکیوں، دروازوں اور نشستوں پر لگے ہوئے سٹین لیس سٹیل کے کنڈے، ہینڈل اور اسی نوعیت کا دوسرا سامان بھی تیار ہوتا ہے جو بعد میں ریلوے کیرج فیکٹری اسلام آباد کو بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 16 دسمبر ملکی تاریخ کا سیاہ دن، سقوط ڈھاکہ کو 53 برس بیت گئے
مغلپورہ ورکشاپ کی حقیقت
مغلپورہ ورکشاپ میں 24 گھنٹے کام ہوتا رہتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کو ابھی تک جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکا اور یہاں صدیوں پرانی مشینری اور ٹیکنالوجی ہی زیر استعمال ہے۔ یہاں کچھ مشینیں تو ایسی بھی ہیں جو 100برس سے بھی زیادہ عرصے سے مصروف عمل ہیں جب کہ ساری دنیا میں وہ مدتوں پہلے متروک قرار دی جا چکی ہیں۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ آج سے 74 سال پہلے انگریز اس ورکشاپ کو جس حالت میں چھوڑ کر گیا تھا آج بھی تقریباً ویسی ہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز پنجاب کی تقدیر بدلنے جا رہی ہیں: عظمیٰ بخاری
ریلوے کیرج فیکٹری، اسلام آباد
اسلام آباد کی ریلوے بوگیاں بنانے کے لیے یہ فیکٹری 1970ء میں قائم ہوئی تھی۔ شروع میں جب جرمنی سے بوگیاں خریدی گئی تھیں تو جرمن کمپنی کے ساتھ تکنیکی تعاون کا ایک معاہدہ بھی ہوا تھا، جس کے تحت وہاں سے خریدی جانے والی بوگیوں میں سے بڑی تعداد میں ان کی تیاری اور تنصیب پاکستان میں ہونا تھی جس کے لیے بوگیاں فراہم کرنے والی کمپنی کے ذریعے اس کی ساری مشینری جرمنی سے ہی خریدی گئی تھی۔ اور وہاں سے تکنیکی ماہرین بھی مقامی انجینئروں اور کاریگروں کی تربیت کے لیے یہاں آئے تھے۔
شروع میں تو یہاں محض جرمنی سے آئی ہوئی کل پرزے جوڑ کر ان بوگیوں کی تیاری کی گئی، پھر رفتہ رفتہ ان پسنجر بوگیوں کے کچھ حصوں کو مقامی طور پر پاکستان میں ہی تیار کیا جانے لگا۔ اب اِنہی کے ڈیزائن کے مطابق بنائی گئی نئی بوگیوں مکمل طور پر پاکستان میں ہی تیار ہونے لگی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فیکٹری بیسیوں سال پرانی استعمال اور متروک شدہ کوچز کی نئے سرے سے تجدید بھی کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وہ گاڑیاں جن کے خلاف لاہور ٹریفک پولیس نے کریک ڈاون شروع کر دیا
فیکٹری کی تفصیلات
یہ فیکٹری ویسے تو بہت ہی وسیع و عریض علاقے میں پھیلی ہوئی ہے لیکن فیکٹری کا کل رقبہ کوئی 58 ایکڑ کے لگ بھگ ہے اور اس میں سے 15 ایکڑ میں مختلف شاپس بنی ہوئی ہیں جہاں ہر ایک میں الگ الگ نوعیت کے کام ہوتے ہیں۔ فیکٹری سنگل شفٹ کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور اس میں 1200 کے قریب ملازمین ہیں۔ 1970ء سے 2002ء تک پہلے مرحلے میں یہاں جرمن ڈیزائن اور معاہدے کے مطابق 175 کے قریب نئی کوچز تیار ہوئی تھیں۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








