وکلاء کے وفود ملنے آتے، انسان کسی عہدے یا دولت سے نہیں کردار سے بڑا بنتا ہے،”ہار کی”خفت“ دھاندلی کا نام لے کر نیا انتشار جنم دیتی ہے۔
مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 350
یہ بھی پڑھیں: نومبر میں فرسودہ نظام کی تبدیلی کے لیے ملک گیر جدوجہد کا آغاز ہوگا، حافظ نعیم الرحمان
ہاتھ لوہے کے دستانے میں
اس دوران وکلاء کے جو وفود ہمیں ملنے آتے وہ افتخار چوہدری کے حوالے سے ایک بات ضرور بتاتے؛ “چیف صاحب خبروں میں رہنے کے رسیا اور چھوٹے گھر سے تھے۔“ انسان کسی عہدے یا دولت سے نہیں بلکہ صرف کردار سے بڑا بنتا ہے۔ وکلاء سے خطاب کے بعد صاحب نے میری فرمائش پر مجھے جنرل پرویز مشرف سے ملوایا تھا۔ ان سے مصافحہ کیا تو لگا ہاتھ لوہے کے دستانے میں چلا گیا تھا۔ انہوں نے مسکرا کر پوچھا؛ “کیسے ہیں آپ؟” ان کی مسکراہٹ اور اعتماد ناقابل یقین تھا۔ وہ وردی میں تھے اور ان کے ساتھ نہایت چاق و چوبند ایس ایس جی کمانڈوز اسی یونٹ سے تھے جس میں کبھی پرویز مشرف نے بطور کمانڈو خدمات انجام دی تھیں۔ یہ یادگار لمحات تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے ختم کرنے کا عدالتی حکم معطل کر دیا
یادگار جلسہ
مجھے 22 مئی کا اسلام آباد والا جلسہ بھی یاد آ گیا جب جنرل پرویز مشرف نے مکا لہرا کر پریڈ گراؤنڈ سے خطاب کیا تھا۔ مکے اور کرسی کا دعویٰ انہیں بچا نہ سکا۔ منصوبہ بندی صرف اللہ کی ہے باقی سب اٹکل پچو ہیں کبھی لگ گئے اور کبھی نہیں۔ لوگوں کو ایسے جلسوں میں جمع کرنے کے لئے روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا تھا۔ اس جلسے کے لئے ہر ضلع کونسل نے اپنے اپنے کیمپ لگائے تھے جہاں ان کے اضلاع سے آنے والوں کی تواضع کا بندوست تھا۔ ہر ضلع نے تین تین چار چار کروڑ خرچ کر دیا تھا۔ سامنے بیٹھے لوگ دل سے نہیں زبردستی لائے گئے تھے اور یہی زبردستی حکمرانوں کی غلط فہمی رہی کہ وہ عوام میں بہت مقبول تھے اور پھر نتائج جب اس ڈھو نگی مقبولیت کے برعکس آتے ہیں تو ہار تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں پڑتا۔ ہار کی "خفت" دھاندلی کا نام لے کر ایک نیا انتشار جنم دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کینیڈا کے عام انتخابات میں انتخابی سرگرمیوں میں پاکستانی اور دیگر ایشیائی ممالک کے شہریوں کی لبرل پارٹی کی حمایت
پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد
اسلام آباد پریڈ گراؤنڈ کے جلسے کے انتظامات کے انچارج بھی صاحب ہی تھے جبکہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب نجیب اللہ ملک پورے صوبے سے coordinate کر رہے تھے۔ جلسے سے ایک شام قبل جب سارے قومی رہنماؤں کے بڑے بڑے پورٹریٹ جلسہ گاہ میں نصب کیے جا رہے تھے تو وزیر اعظم کا پورٹریٹ ایک اہم شخصیت کے پورٹریٹ کے پیچھے چھپ گیا بلکہ اس شخصیت نے جان بوجھ کر اپنا پورٹریٹ ایسے لگوایا تھا کہ شوکت عزیز کا پورٹریٹ نظر نہ آئے۔ کچھ ہی لمحوں میں وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کا فون آیا کہ وزیر اعظم کا پورٹریٹ کیوں نہیں لگایا گیا۔ صاحب نے نجیب اللہ ملک کو غصے میں بلایا جب تک وہ اور خرم آغا ایڈیشنل سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی (یہ سابق فوجی تھے، سست اور کم عقل) کو ہمراہ لئے پریڈ گراؤنڈ پہنچتے تو صاحب جلسہ گاہ کا راؤنڈ لینے نکل چکے تھے۔ نجیب اللہ نے سوٹ کے نیچے چپل پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور پریڈ گراؤنڈ میں نصب وزیر اعظم کے پورٹریٹ کی جانب چلے گئے۔ کہنے لگے؛ “شہزاد! وزیر اعظم کے پورٹریٹ کو اہم شخصیت کے لگے دیو ہیکل پورٹریٹ نے چھپالیا ہے۔” واپس آئے تو ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے صاحب کو بتایا؛ “سر! شہزاد دیکھ آیا ہے کہ وزیر اعظم کا پورٹریٹ لگا ہے。” میں اکورڈ وپوزیشن میں آگیا۔ ہاں کہوں تو مشکل اور نہ کہوں تو مشکل۔ خیر میں نے یوں جان چھڑائی کہ سر! ملک صاحب نے اس شخصیت کے پورٹریٹ کو وہاں سے ہٹانے کا حکم دیا ہے۔” ایڈیشنل چیف سیکرٹری مسکرا دئیے۔ کبھی کبھی ماتحت بھی اچھی بات کر جاتے ہیں۔ اس روز اسلام آباد میں جلسہ اور کراچی میں ہونے والے دلخراش سانحہ اس ملک کی پہلے سے داغدار سیاسی تاریخ کو مزید داغدار اور دردناک کر گیا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب “بک ہوم” نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








