عوامی رہنما بننا آسان نہیں، ہمارے جیسے ممالک میں جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے جو آمر کے بس کی بات نہیں ہوتی، بھٹو جیسے سرپھرے ہی یہ کام کر سکتے ہیں
مصنف کی تحریر
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 351
یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل 10: اسلام آباد یونائیٹڈ کی شاندار شروعات، لاہور قلندرز کو 8 وکٹوں سے شکست
جنرل پرویز مشرف کا منصوبہ
میری فکر "جنرل" ہے؛ ملکہ پربت مری کے پر فضاء ماحول کو سوئی گیس کی فراہمی کا منصوبہ بھی جنرل مشرف نے اپنی تشہیر کے لئے استعمال کرنے کا موقع جانا۔ سیاسی حکومت ان کی ہر منشا کی طرح اس منشا کو بھی پورا کرنے کو تیار تھی۔ جنرل کی خوشنودی کے لئے ایک بار پھر سرکاری مال بے رحمی سے بہایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر داخلہ محسن نقوی سے سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی کی ملاقات
اجلاس کا احوال
لارنس کالج کے تاریخی گراؤنڈ میں ہونے والا یہ جلسہ ہر گز تاریخی نہ تھا۔ سخت سیکیورٹی انتظامات میں کوشش کے باوجود بہت سے لوگ جلسہ گاہ نہ پہنچ سکے تھے۔ عوامی لیڈر بننا آسان نہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے، جو آمر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ بھٹو یا عمران خان جیسے سرپھرے ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کل سے سعودی عرب کا 2 روزہ دورہ کریں گے
سیکیورٹی انچارج کا بیان
مجھے یاد ہے صاحب نے مشرف کے سیکیورٹی انچارج سے کہا؛ "ابھی بہت لوگ جلسہ گاہ سے باہر ہیں، انہیں آنے دیں، سیکیورٹی کچھ نرم کر دیں تاکہ جلسہ گاہ بھر جائے۔" کرنل بولے؛ "آپ کو جلسہ گاہ بھرنے کی فکر ہے اور میری فکر جنرل کی سلامتی ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو چین سے 75 لاکھ ڈالر کا بیف ایکسپورٹ کا نیا آرڈر مل گیا
جنرل پرویز مشرف کا خطاب
تھوڑی ہی دیر میں جنرل پرویز مشرف کا کاروان پہنچ گیا۔ ہمیشہ کی طرح ان کے وفادار کمانڈوز ان کے ساتھ تھے۔ فوجی وردی میں انہوں نے خطاب شروع کیا۔ غبارے فضا میں چھوڑے گئے، اسی اثنا میں غبارے گیس کے فلیم کے قریب پہنچے تو آگ کی حدت سے ان میں سے کچھ پھٹنے لگے۔ ایسا لگا مشین گن فائر کر رہی ہو۔ آفرین جنرل مشرف پر کہ اُن آوازوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی تقریر جاری رکھی تھی۔ پاکستانی فوج کے کمانڈو اور سپہ سالار کو ایسا ہی دلیر اور نڈر ہونا چاہیے۔ ویسے جنرل پرویز مشرف دلیر تھے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں اسلحہ کے زور پر کارروائیں کرنے والا 5 رکنی خواتین کا گینگ گرفتار
احمد کی طبیعت کی خرابی
احمد نویں جماعت میں تھا کہ سکول میں سپورٹس پریڈ کے دوران فٹ بال کھیلتے گر گیا۔ میں دفتر تھا۔ ابا جی احمد کو گھر لے آئے۔ شام کو احمد نے بتایا کہ "کھیلتے کھیلتے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا اور میں گر گیا۔" یہ بڑی فکر کی بات تھی۔
یہ بھی پڑھیں: جب اللہ نے پہلے ہی انسان کی تقدیر لکھ دی، تو انسان کے اختیار کی حقیقت کیا ہے؟ یشما گل کا ڈاکٹر ذاکر نائیک سے سوال
طبی ٹیسٹ اور اس کی رپورٹ
اگلے روز میں اسے پی آئی سی لے گیا جہاں میرے چچا ڈاکٹر جاوید رشید ایم ایس تھے۔ اس کے ٹیسٹ ہوئے، ایکسرے ہوا۔ ایکسرے میں دل پر کوئی داغ نظر آیا۔ ہارٹ کے ڈاکٹر نے کہا "دل کا کلرڈ سی ٹی سکین جنرل ہسپتال سے ہوگا اور سکین کی رپورٹ فلاں پروفیسر آف ریڈیالوجی ہی لکھیں گے، تبھی کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ پائیں گے۔" مجھے شک ہے کہیں دل میں سوراخ نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: گاؤں سے 4گھنٹے پیدل یا بیل گاڑی پر سفر کر کے فورٹ عباس یا قریبی اسٹیشن ٹبہ عالمگیر پہنچتے، چھوٹے اسٹیشن دو تین ہی مشہور ہوئے، ایک ڈونگا بونگا تھا
خاندانی حمایت
یہ سن کر میرے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ چچا نے بھی پروفیسر صاحب کو فون کیا اور صاحب نے بھی۔ خیر سکین ہوا۔ ابا جی، میری بہنیں، بھائی، عمر، عظمیٰ، اس کی بہن، میرے ہم زلف اور ان کے بچے سبھی جنرل ہسپتال تھے۔ سب کے خاموش لبوں پر دعائیں تھیں۔ میں ویسے بھی چھوٹے دل کا ٹھہرا۔ چھپ چھپ کر آنسو بہاتا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں عبوری حکومت بنانے کی ذمہ داری محمد البشیر کے سپرد
ڈاکٹر کی رپورٹ
ڈاکٹر نے رپورٹ لکھی اور مجھے بلا کے کہا؛ "میں نے سکین اچھی طرح دیکھ لیا۔ رپورٹ بھی لکھ دی ہے۔ اللہ کا شکر ہے ایسی کوئی بات نہیں جس کا خدشہ ڈاکٹر نے ظاہر کیا تھا۔ ماشاء اللہ تندرست بچہ ہے مگر تھوڑا کمزور۔ اسے دودھ روز دیا کریں۔" میری کیا سب کی جان میں جان آ گئی تھی۔ اللہ کا شکر ہے، اس کے بعد احمد کو کبھی ایسی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








