عوامی رہنما بننا آسان نہیں، ہمارے جیسے ممالک میں جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے جو آمر کے بس کی بات نہیں ہوتی، بھٹو جیسے سرپھرے ہی یہ کام کر سکتے ہیں
مصنف کی تحریر
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 351
یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے رہنما عابد شیر علی بلامقابلہ سینیٹر منتخب
جنرل پرویز مشرف کا منصوبہ
میری فکر "جنرل" ہے؛ ملکہ پربت مری کے پر فضاء ماحول کو سوئی گیس کی فراہمی کا منصوبہ بھی جنرل مشرف نے اپنی تشہیر کے لئے استعمال کرنے کا موقع جانا۔ سیاسی حکومت ان کی ہر منشا کی طرح اس منشا کو بھی پورا کرنے کو تیار تھی۔ جنرل کی خوشنودی کے لئے ایک بار پھر سرکاری مال بے رحمی سے بہایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: معاملات بات چیت سے حل ہوتے ہیں دھمکیوں سے نہیں: خواجہ آصف
اجلاس کا احوال
لارنس کالج کے تاریخی گراؤنڈ میں ہونے والا یہ جلسہ ہر گز تاریخی نہ تھا۔ سخت سیکیورٹی انتظامات میں کوشش کے باوجود بہت سے لوگ جلسہ گاہ نہ پہنچ سکے تھے۔ عوامی لیڈر بننا آسان نہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے، جو آمر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ بھٹو یا عمران خان جیسے سرپھرے ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جتنی پلیٹ فارم پر چہل پہل اور رونق ہوتی ہے اتنا ہی اداس ماحول اسٹیشن کے باہر نظر آتا ہے، زیادہ تر قلی ہی منڈلی سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
سیکیورٹی انچارج کا بیان
مجھے یاد ہے صاحب نے مشرف کے سیکیورٹی انچارج سے کہا؛ "ابھی بہت لوگ جلسہ گاہ سے باہر ہیں، انہیں آنے دیں، سیکیورٹی کچھ نرم کر دیں تاکہ جلسہ گاہ بھر جائے۔" کرنل بولے؛ "آپ کو جلسہ گاہ بھرنے کی فکر ہے اور میری فکر جنرل کی سلامتی ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: ویڈیو: اب حکومت خود آپ کو روزگار کیلئے بیرون ملک بھیجے گی، ویزہ سے لے کر ٹکٹ تک کا خرچہ حکومت کرے گی، اپلائی کرنے کا آسان طریقہ
جنرل پرویز مشرف کا خطاب
تھوڑی ہی دیر میں جنرل پرویز مشرف کا کاروان پہنچ گیا۔ ہمیشہ کی طرح ان کے وفادار کمانڈوز ان کے ساتھ تھے۔ فوجی وردی میں انہوں نے خطاب شروع کیا۔ غبارے فضا میں چھوڑے گئے، اسی اثنا میں غبارے گیس کے فلیم کے قریب پہنچے تو آگ کی حدت سے ان میں سے کچھ پھٹنے لگے۔ ایسا لگا مشین گن فائر کر رہی ہو۔ آفرین جنرل مشرف پر کہ اُن آوازوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی تقریر جاری رکھی تھی۔ پاکستانی فوج کے کمانڈو اور سپہ سالار کو ایسا ہی دلیر اور نڈر ہونا چاہیے۔ ویسے جنرل پرویز مشرف دلیر تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر پاکستان نے فضائی حدود بند رکھی تو ایئر انڈیا کو 5 ہزار کروڑ کا نقصان ہوگا، سی ای او کا انکشاف
احمد کی طبیعت کی خرابی
احمد نویں جماعت میں تھا کہ سکول میں سپورٹس پریڈ کے دوران فٹ بال کھیلتے گر گیا۔ میں دفتر تھا۔ ابا جی احمد کو گھر لے آئے۔ شام کو احمد نے بتایا کہ "کھیلتے کھیلتے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا اور میں گر گیا۔" یہ بڑی فکر کی بات تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل شام پر مسلسل فضائی حملے کیوں کر رہا ہے؟ دیرینہ دشمن کو کمزور کرنے کی کوشش یا کیمیلائی ہتھیاروں کی تلاش؟
طبی ٹیسٹ اور اس کی رپورٹ
اگلے روز میں اسے پی آئی سی لے گیا جہاں میرے چچا ڈاکٹر جاوید رشید ایم ایس تھے۔ اس کے ٹیسٹ ہوئے، ایکسرے ہوا۔ ایکسرے میں دل پر کوئی داغ نظر آیا۔ ہارٹ کے ڈاکٹر نے کہا "دل کا کلرڈ سی ٹی سکین جنرل ہسپتال سے ہوگا اور سکین کی رپورٹ فلاں پروفیسر آف ریڈیالوجی ہی لکھیں گے، تبھی کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ پائیں گے۔" مجھے شک ہے کہیں دل میں سوراخ نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں لگی آگ بجھانے کے لیے امریکی ماہرین کی خدمات حاصل کر لی گئیں
خاندانی حمایت
یہ سن کر میرے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ چچا نے بھی پروفیسر صاحب کو فون کیا اور صاحب نے بھی۔ خیر سکین ہوا۔ ابا جی، میری بہنیں، بھائی، عمر، عظمیٰ، اس کی بہن، میرے ہم زلف اور ان کے بچے سبھی جنرل ہسپتال تھے۔ سب کے خاموش لبوں پر دعائیں تھیں۔ میں ویسے بھی چھوٹے دل کا ٹھہرا۔ چھپ چھپ کر آنسو بہاتا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: سوسائٹی کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جائے، ہیلتھ ہائوسنگ سوسائٹی کے سالانہ اجلاس میں قرارداد منظور
ڈاکٹر کی رپورٹ
ڈاکٹر نے رپورٹ لکھی اور مجھے بلا کے کہا؛ "میں نے سکین اچھی طرح دیکھ لیا۔ رپورٹ بھی لکھ دی ہے۔ اللہ کا شکر ہے ایسی کوئی بات نہیں جس کا خدشہ ڈاکٹر نے ظاہر کیا تھا۔ ماشاء اللہ تندرست بچہ ہے مگر تھوڑا کمزور۔ اسے دودھ روز دیا کریں۔" میری کیا سب کی جان میں جان آ گئی تھی۔ اللہ کا شکر ہے، اس کے بعد احمد کو کبھی ایسی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








