انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے رہنماؤں کی غالب اکثریت وکلاء کی تھی، یہ وکلاء ہی تھے جنہوں نے برصغیر کے عوام کو غلامی سے آزاد کروایا۔
مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط: 221
سرفراز سید کی تنبیہ
سرفراز سید اچانک اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بار کے سابق صدر کی جاری تقریر کو روکتے ہوئے باآواز بلند بھرے ہال میں انہیں تنبیہ کی کہ بلوچستان کا نام الگ ملک کے طور پر نہ لیا جائے۔ بلوچستان پاکستان کا ایسے ہی ایک صوبہ ہے جیسے یو پی بھارت کا صوبہ ہے۔ چنانچہ مقرر نے خود کو درست کیا اور وضاحت کی کہ وہ بلوچستان کا ذکر پاکستان کی ایک سٹیٹ کے طور پر کر رہے ہیں۔ ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بلوچستان کوئی الگ ملک ہے۔
انکم ٹیکس بار کے صدر کی تقریر
انکم ٹیکس بار کے صدر دیپک مشرا نے اپنی تقریر میں کہا کہ وکیل سماج سے جڑا ہوا ہوتا ہے لہٰذا سماج کے مسائل سے آگاہ ہوتا ہے اور ان کے قانونی حل کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ ایشیاء کے ممالک سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، بھارت اور پاکستان کے سماجی مسائل بہت حد تک ایک جیسے ہیں۔ ان تمام ممالک کے وکیلوں کو باہمی تعاون سے ان مشترکہ مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کر متحدہ جدوجہد کرنی چاہیے۔
رانا امیر احمد خاں کی رائے
دیپک مشرا ایڈووکیٹ کے بعد تقریب کے صدر رانا امیر احمد خاں کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ راقم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستانی عوام کو بمبئی تاج محل بم بلاسٹ والے واقعہ پر سخت صدمہ ہوا ہے۔ اس بلاسٹ نے دونوں ممالک کے درمیان جاری امن پراسس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور عوامی سطح پر نشوونما پانے والی امن و آشتی کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
دہشت گردی کا مشترکہ سامنا
دہشت گردی بھارت میں ہو یا پاکستان میں، سری لنکا میں ہو یا بنگلہ دیش میں …ہمیں ایک دوسرے پر کیچڑ اْچھالے بغیر مشترکہ طور پر اس کا سامنا کرنا چاہیے۔ کسی تخریبی کارروائی کے زیر اثر امن عمل نہیں رکنا چاہیے۔
آزادی کی جنگ میں وکلاء کا کردار
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے راقم نے کہا کہ انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے رہنماؤں کی غالب اکثریت وکیلوں کے طبقے نے فراہم کی تھی۔ یہ وکلاء ہی تھے جنہوں نے برصغیر کے عوام کو غلامی سے آزاد کروایا اور اپنی زندگیوں کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا۔
موجودہ سیاسی صورتحال
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج برصغیر کے ممالک کی اسمبلیوں میں وکلاء کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور ان ایوانوں میں اہلِ علم کی بجائے سرمایہ دار قابض ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدمت کی سیاست اب مفادات کی سیاست میں تبدیل ہو چکی ہے اور اسمبلیوں میں عوام کے خادموں کی بجائے ڈرامہ باز مفاد پرست اشرافیہ کے کم تعلیم یافتہ افراد داخل ہو رہے ہیں۔
نظام کی اصلاح کی ضرورت
برصغیر کے ممالک کی سیاسی قیادت اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہے اور بدنیتی کی بنیاد پر نظامِ حکومت چلائے جا رہے ہیں۔ اسی لیے خطہ کے ممالک میں افراتفری اور بے چینی کی فضاء قائم ہے۔ ہمیں یہ نظام درست کرنے کے لیے اور آئین و قانون کی صحیح پاسداری کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے اور اپنی اپنی قوموں کو اپنے اپنے حالات کے مطابق فکری اور قانونی رہنمائی مہیا کرنی چاہیے۔
تقریر کا اختتام
اپنی تقریر کو ختم کرتے ہوئے راقم کی تقریر پْرجوش تالیوں پر ختم ہوئی۔ تالیاں بجانے والوں میں پاکستان کے علاوہ بھارت، سری لنکا، نیپال اور ناروے کے نمائندگان بھی شامل تھے۔ فکری ہم آہنگی کا یہ منظر دیکھ کر ہمارے ظفر علی راجا نے فی البدیع درج ذیل شعر پڑھ کر ہمیں داد دی۔
کِس آسانی کے ساتھ وہ ٹوٹے ہوئے دل جوڑ دیتا ہے
خوشی سے بولنا جس شخص کا معمول ہو جائے
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








