مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے 12 سال میں صرف 59 لوکوموٹو ہی تیار کیے جا سکے، اس کے پیچھے بھی نالائق اور بدعنوان افسروں کی فوج ظفر موج تھی
مصنف کی تفصیلات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 312
یہ بھی پڑھیں: میں نے بھی اسے کئی دفعہ چلتی ہوئی ریل گاڑی سے ہی دیکھا ہے، ان دیو ہیکل فولادی ڈھانچوں کو دیکھ کر دِل میں انجانا سا خوف بھی آجاتا ہے۔
فیکٹری کا تعارف
ریلوے لوکو موٹیو فیکٹری رسالپور پاکستان میں مقامی طور پر ڈیزل الیکٹرک لوکو موٹیو تیار کرنے کی یہ فیکٹری 1993ء میں رسالپور خیبر پختونخوا میں 14 ملین ڈالرز کی خطیر رقم سے قائم کی گئی تھی۔ فیکٹری کو جدید ترین مشینری سے آراستہ کیا گیا تھا، جسے جاپان سے درآمد کیا گیا تھا۔ تکنیکی معاونت جاپان کی ہٹاچی، امریکہ کی جنرل الیکٹرک اور کچھ یورپین کمپنیوں نے فراہم کی۔
یہ بھی پڑھیں: اگر بھارت سے مذاکرات ہوئے تو پانی، دہشتگردی اور کشمیر پر بات ہوگی: وزیر دفاع
فیکٹری کی خصوصیات
اس فیکٹری کا کل رقبہ تقریباً 100 ایکڑ ہے اور یہاں کوئی 600 کے قریب ملازمین سنگل شفٹ میں کام کرتے ہیں۔ لوکوموٹیو تیار کرنے کی یہ فیکٹری اس وجہ سے قائم کی گئی تھی کہ غیر ملکی انجنوں کی درآمد پر انحصار کم سے کم کیا جائے اور ملک کا قیمتی زرِ مبادلہ بچایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: عجمان میں منعقد ہ “PID بزنس سمٹ” کے تحت تقریب میں پاکستانی کمیونٹی کے اراکین اور کاروباری شخصیات کی شرکت
پیشگی منصوبے
ابتدائی منصوبے کے تحت اس فیکٹری میں پہلے 4 سال تک 39 انجن سالانہ تیار کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا اور بعد ازاں ہر برس اوسطاً 25 لوکوموٹیو تیار کرنے تھے۔ یہ صلاحیت ایک شفٹ میں کام کرنے پر حاصل کی جا سکتی تھی، لیکن اگر 2 شفٹوں میں کام شروع ہوتا تو تعداد بھی دوگنا ہو سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سلمان اکرم راجہ نے مقدمات کی تفصیلات کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا
چیلنجز اور ناکامیاں
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے 12 سال میں صرف 59 لوکوموٹیو ہی تیار کیے جا سکے۔ ایک موقع پر فیکٹری کی پیداوار انتہائی کم ہوئی اور خدشہ تھا کہ یہ بند ہو جائے گی۔ اس کے پیچھے محکمے کے نالائق اور بدعنوان افسروں کی ایک فوج ظفر موج تھی جو اس فیکٹری کو ناکام بنانے میں مصروف رہی۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا خطرناک ترین قیدی 46 سال بعد ’شیشے کے پنجرے‘ سے باہر آ گیا ، 17 ہزار دن قید تنہائی میں گزارنے کا ریکارڈ بنا دیا۔
اہم کامیابیاں
بہرحال، اس فیکٹری نے اب تک 100 سے زیادہ لوکوموٹیو مقامی طور پر تیار کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، 25 کے قریب تباہ شدہ اور متروک انجنوں کی ضروری مرمت کر کے انھیں نئی زندگی دی ہے۔ پاکستان میں مختلف کمپنیوں اور ماڈلز کے لوکوموٹیو مصروف عمل ہیں، جن کے لیے نئے کل پرزے حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے، تاہم مقامی طور پر اسی فیکٹری میں تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آج کس منہ سے پیپلز پارٹی کا دم چھلّا بنے ہوئے ہیں، ذاتی مفادات کی سیاست کرنے والے یہ لوٹے مسلم لیگ کے نام پر سیاہ دھبوں کی حیثیت رکھتے ہیں
دیگر پیداوار
ریلوے انجنوں کے علاوہ یہاں 500 کے قریب مال گاڑیوں کی "ہوپر" یعنی کوئلہ یا اجناس لے جانے والی ویگنیں بھی بنائی گئی ہیں۔ پاکستان میں کوئلے کی مانگ میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، خاص طور پر تھر سندھ اور مچھ بلوچستان کی کوئلے کی کانوں سے۔
موجودہ صورتحال
اگرچہ یہاں کام جاری رہتا ہے، مگر کئی وجوہات کی بنا پر فیکٹری ابھی تک کوئی قابل رشک کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں لوکوموٹیو کی شدید کمی نے محکمہ ریلوے کو بہت خسارہ دیا ہے، جس کی وجہ سے مال گاڑیوں کی تعداد میں کمی لانا پڑی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








