ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا: جسٹس ہاشم کاکڑ
سپریم کورٹ کے جج کا دلچسپ مکالمہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کے جج جسٹس ہاشم کاکڑ کا ایک کیس کی سماعت کے دوران ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر ملک جمیل ظفر سے اہم مکالمہ ہوا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کے ہلکے پھلکے انداز میں دیے گئے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
یہ بھی پڑھیں: جی ایچ کیو حملہ کیس؛ عمران خان کو چالان کی نقول فراہم، بانی پی ٹی آئی کا صحت جرم سے انکار
ڈی آئی جی کا مقدمے میں مؤقف
ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے وکیل شاہ خاور عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ فیصل آباد کی ایک ٹرائل کورٹ میں فوجداری مقدمہ زیر سماعت تھا، جس میں ٹرائل کورٹ نے گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: تیراہ واقعہ: شہداء کے لواحقین کے لیے 1 کروڑ، زخمیوں کے لیے 25 لاکھ فی کس امداد کا اعلان
عدالت کی تنقید
شاہ خاور نے کہا کہ میرے موکل اس وقت ایس پی تھے، ان کے خلاف ٹرائل کورٹ نے آرڈر میں آبزرویشنز دیں۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ صرف لوگوں کو جیل میں ڈالنا نہیں ہوتا، عدالتوں میں گواہان کو پیش بھی کرنا ہوتا ہے۔ ٹرائل کورٹ کے جج صاحب خود جا کر گواہان کو لا تو نہیں سکتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بنوں، نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا کیے گئے ایس ایچ او عابد کو شہید کردیا گیا
جسٹس کا ہنسی مذاق
جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ شاہ خاور صاحب یہ تو آپ کے ساتھ پولیس والا کھڑا ہے، کیا یہی ڈی آئی جی ہے؟ شاہ خاور نے جواب دیا کہ جی مائی لارڈ یہی ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں ریمارکس دیے کہ "یہ دیکھیں یہ یہاں کھڑا ہمیں ڈرا رہا ہے، ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔"
جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے، جبکہ عدالت نے معاملہ ہائیکورٹ بجھوا دیا۔
فیصلہ اور آگے کا طریقہ کار
سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ نے پولیس افسر کے خلاف آبزرویشنز دیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے چیمبر میں فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز برقرار رکھیں، جبکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کی اپیل بحال کی جاتی ہے، اور ہائی کورٹ میرٹس پر کیس کا دو ماہ میں سن کر فیصلہ کرے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا بغیر سنے فیصلہ دیا گیا۔








