سلپَر لکڑی کے مضبوط اور بھاری شہتیروں کی شکل میں استعمال ہوتے تھے، ڈیڑھ سو برس گزر جانے کے بعد بھی ان میں سے اکثر پوری طرح کارآمد ہیں

مسلم: محمد سعید جاوید

قسط: 313

ریلوے کے اس بوسیدہ نظام کو زندہ رکھنے کی خاطر سیکڑوں لوکوموٹیو باہرخصوصاً چین اور امریکہ سے درآمد کئے گئے جس سے ریل کا پہیہ تو چل نکلا ہے لیکن ابھی بھی لوکوموٹیو کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے محکمہ نقصان میں سے نکل نہیں پایا۔ اگر اس ادارے کی کارکردگی بہتری نہ کی گئی تو ایم ایل- 1 کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد، جب مسافر اور مال گاڑیوں کی تعداد یکدم بڑھ جائے گی، یہ ضرورت کے مطابق لوکوموٹیو فراہم کرنے میں بہت پیچھے رہ جائیں گے جس کی وجہ سے ایک بار پھر قیمتی زر مبادلہ خرچ کر کے غیر ممالک سے لوکوموٹیو درآمد کرنے پڑیں گے۔

لوکوموٹیو کی تیاری

ریلوے کوچز کی فیکٹری کی طرح یہاں بھی ہر کام کے لیے مختلف شاپ بنی ہوئی ہیں جہاں کاریگر انجن پر اپنا اپنا کام مکمل کر کے اسے اگلے مرحلے کے لیے متعلقہ شاپ میں بھیج دیتے ہیں۔ لوکوموٹیو کی تیاری ایک انتہائی پیچیدہ مگر منظم طریقہ کار کے مطابق ہوتی ہے۔ اس میں فولادی چیسز سے شروع ہو کر مختلف مراحل سے گزرتا ہوا یہ لوکوموٹیو پینٹ شاپ تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس پر رنگ و روغن کر کے اسے کئی کئی گھنٹے تجرباتی طور پر چلا اور دوڑا کر دیکھا جاتا ہے اور ہر طرح سے مطمئن ہو کر اسے متعلقہ محکمے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ سارا پیچیدہ تکنیکی طریقہ کار ہے، جسے یہاں بیان کرنے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں ہے کہ وہ عام قاری کی سمجھ سے بھی باہر ہو جائے گا۔

ریلوے کنکریٹ سلیپر فیکٹری

محکمہ ریلوے کے تعمیراتی شعبے کا ایک اور بڑا اور اہم ترین کام پٹریوں کے لیے سلیپروں کی تیاری ہے۔ فولادی پٹریاں تو باہر سے درآمد ہوتی ہیں، تاہم اس کے نیچے رکھے جانے والے کنکریٹ کے سلیپروں کی تیاری پاکستان میں مختلف شہروں میں واقع کئی فیکٹریوں میں ہوتی ہے۔ سلیپر پٹری کو ہموار، مضبوط اور اپنی جگہ قائم رکھنے کے لیے اس کے نیچے ایک متعینہ فاصلے پر رکھے جاتے ہیں۔ اس میں مقررہ جگہ پر نٹ بولٹ اور فولادی پلیٹیں لگتی ہیں جنھیں پٹری کے نیچے رکھ کر اس کے ساتھ کس دیا جاتا ہے، جس سے ریل کے دونوں اطراف کی پٹریوں کے درمیان فاصلہ ہمیشہ یکساں رہتا ہے اور پٹری اپنی جگہ سے ہلتی بھی نہیں ہے۔

ماضی کی مثالیں

ماضی میں جب دنیا میں مضبوط لکڑی کی فراوانی تھی تو یہ سلیپر لکڑی کے مضبوط اور بھاری شہتیروں کی شکل میں استعمال ہوتے تھے۔ ان کی عمر اتنی لمبی ہوتی تھی کہ آج ڈیڑھ سو برس گزر جانے کے بعد بھی ان میں سے اکثر پوری طرح کارآمد ہیں اور پاکستان ریلوے کی کئی برانچ لائنوں پر استعمال ہو رہے ہیں۔ بچھانے سے قبل ان کو مزید مستحکم اور مضبوط رکھنے کے لیے خاص تیل اور کیمیاوی محلول میں ڈبویا جاتا تھا تاکہ یہ موسم کی ہر طرح کی سختیاں برداشت کرسکیں اور انھیں دیمک وغیرہ بھی نہ لگ سکے۔

نئے تجربات اور کنکریٹ سلیپر

رفتہ رفتہ لکڑی کی کارآمد زندگی ختم ہوتی گئی جبکہ سلیپر بنانے کے لیے نئی لکڑی بڑی مقدار میں دستیاب بھی نہیں تھی۔ لہٰذا اس کے بجائے سلیپر بنانے کے لیے کچھ اور تجربات کئے گئے۔ جس میں پہلے پہل مکمل طور پر بھاری فولادی پلیٹوں سے سلیپر بنائے گئے جو بلا شبہ مضبوط تو تھے لیکن ان کی زیادہ لاگت کی وجہ اور موسمی تغیرات سے جلدی خراب ہونے کے خدشہ کے پیش نظر ماہرین نے اس کی جگہ کنکریٹ کے سلیپر بنانے کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...