رمیز راجہ نے کہا ”تم وہ کھیل کھیل رہے ہو جس کا کوئی مستقبل نہیں، باپ کی طرح تیز باؤلنگ کرو“ میری لاج رہ گئی، کبھی کبھار فون پر بات ہو جاتی ہے۔
مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 354
یہ بھی پڑھیں: امتحانی فارم پر طالبعلم نے والد اور والدہ کی جگہ کس کا نام لکھ دیا؟ جان کر ہنسی روکنا مشکل ہو جائے
رمیز راجہ کا کمال
رمیز راجہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو تھے۔ ان دنوں شاید انڈیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آ رہی تھی۔ ٹیم کی سیکیورٹی، میچ پولیس کی تعیناتی اور دوسرے امور کی کمیٹی کے انچارج صاحب ہی تھے۔ رمیز اسی سلسلے میں صاحب سے ملاقات کے لئے آنا چاہ رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: قلات میں دھماکا، 2 افراد جاں بحق، 4 زخمی
یادیں اور روابط
رمیز اور میں نے پنجاب یونیورسٹی کے لئے اکٹھے کرکٹ کھیلی۔ تب سے ہمارے درمیان اچھے تعلقات تھے۔ بعد میں کچھ رشتہ داری بھی ہوگئی کہ میری بیگم کے ایک کزن کی شادی اس کی بیگم کی کزن سے ہوئی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ ہمارے مشترکہ دوست ناصر عباس کا یار غار تھا۔ ناصر ماڈل ٹاؤن میں میرا ہمسایہ اور اچھا دوست ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی: صوبے میں گورنر راج پر فی الحال کوئی فیصلہ نہیں
تعزیت کا موقع
خیر میٹنگ میں تمام ضروری امور طے ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد رمیز کے بڑے بھائی پاکستان کے سب سے سٹائلیش لیفٹ ہینڈ بیٹسمین وسیم حسن راجہ کا انتقال ہوا تو ہم تعزیت کے لئے رمیز کے گھر ای بلاک ماڈل ٹاؤن گئے۔ صاحب نے مجھے بتایا کہ رمیز کے والد سلیم حسن راجہ کے ان کے ساتھ خاندانی مراسم بھی تھے، جو راجپوت نیٹ ورک کہلاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حیرت انگیز چیز بچے کی ننھی سی ممی تھی، ننھا سا فرعون آنکھیں موندھے پڑا تھا، اب مجھ میں کسی اور مقبرے کو دیکھنے کی ہمت تھی نہ خواہش، خاصی شام ہوچکی تھی.
رمیز کی شخصیت
رمیز خاندانی انسان ہے۔ وہ سلجھا ہوا، پڑھا لکھا اور ہنس مکھ ہے۔ جگت لگانے اور برداشت کرنے میں برابر ہے۔ مجھے یاد ہے یونیورسٹی کے دنوں کے بہت عرصے بعد اس کی میری ملاقات شاہی قلعے میں ہوئی جہاں انڈین ٹیم کے اعزاز میں وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے پر تکلف عشائیہ دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت سے مضر صحت ہواؤں کی آمد، آلودگی میں خطرناک اضافہ، لاہور پھر سرفہرست
بچوں کا تعارف
عشائیے کے بعد عمر اور احمد کو رمیز نظر آیا تو یہ بضد ہوئے کہ ہمیں ان سے ملنا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ “کبھی ہم دونوں اکٹھے کھیلتے تھے۔” خیر میں انہیں لے کر اس کے پاس گیا تو اس نے مجھے خوب پہچانا؛ کہنے لگا؛ “او ہولڈر کیسا ہے۔” خیر سلام دعا کے بعد بچوں کا تعارف کرایا۔ ماشاء اللہ دونوں ہی 6 فٹ کے تھے۔ انہیں دیکھ کر بولا؛ “یار! یہ بھی تیری طرح تیز باؤلنگ کرتے ہیں؟” میں نے جواب دیا؛ “نہیں یہ فٹ بال کھیلتے ہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی میں غیرت کے نام پر لڑکی کا قتل، سابق وائس چیئرمین، مدعی مقدمہ سمیت 4ملزم گرفتار
میجر ضیاء الرحمان کا کردار
پنجاب میں میجر(ر) ضیاء الرحمان کو آئی جی لگوانے میں صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔ صاحب کے ان سے پرانے مراسم تب سے تھے جب میجر ضیاء راولپنڈی میں ایس ایس پی ہوا کرتے تھے۔ وہ بڑے سلجھے ہوئے، دبنگ، اور رکھ رکھاؤ والی شخصیت کے مالک تھے۔
یہ بھی پڑھیں: محرم میں عزاداری پر پابندی مودی حکومت کی مذہبی انتہاپسندی کا ثبوت ہے:مشعال ملک
سپریم کورٹ کی پیشی
ایک بار چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے انہیں اپنی عدالت میں طلب کیا۔ اس واقعہ کے دوران میجر ضیاء سپریم کورٹ کی پیشی بھگت کر لاہور آ رہے تھے۔ میرے فون پر ہی ان کی صاحب سے بات ہوئی۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








