پاکستان سے تجارت کی بندش، افغان معیشت کو ناقابل تلافی نقصان
افغانستان میں پھلوں کی قیمتوں کا غیر متوقع حال
حال ہی میں افغان سوشل میڈیا پر متعدد پوسٹس گردش کر رہی ہیں جن میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک میں اچانک پھل بہت سستے ہوگئے ہیں۔ ان پوسٹس کو دیکھ کر بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کوئی بڑی معاشی کامیابی ہو، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ قیمتوں میں کمی ہمیشہ خوشحالی کی علامت نہیں ہوتی، خاص طور پر جب بات ہو زرعی شعبے کی ایسی فصلوں کی جو زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہتیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے سابق نائب وزیر اعلیٰ پنجاب کو توہین مذہب پر بیت الخلا صاف کرنے کی سزا
تجارت کی پابندیاں اور اس کے اثرات
چند دن قبل افغانستان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تجارت محدود یا معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کا فوری اور سب سے بڑا اثر ان مصنوعات پر پڑا جو افغانستان کی بیرونی تجارت کا نمایاں حصہ ہوتی ہیں—جن میں پھل، خشک میوہ جات اور دیگر زرعی اجناس شامل ہیں۔ چونکہ ان اجناس کی بڑی منڈی پاکستان رہی ہے، لہٰذا تجارت رکنے سے ملکی منڈی میں رسد اچانک بہت بڑھ گئی۔
یہ بھی پڑھیں: شریف فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کیس: شہزاد اکبر کی درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر خارج
پھلوں کی فروخت اور طلب میں کمی
پھل چونکہ perishable یعنی جلد خراب ہونے والی اجناس ہیں، اس لیے ان کی بروقت فروخت نہ ہو تو نقصان ناگزیر ہوتا ہے۔ جب برآمد رک گئی تو افغانستان کے اندر لاکھوں ٹن پھل مقامی منڈیوں میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ لیکن ایک بنیادی معاشی اصول یہ ہے کہ کسی بھی شے کی طلب ایک خاص حد تک ہی بڑھ سکتی ہے۔ یعنی اگر قیمت بہت کم بھی ہوجائے، تب بھی صارف اتنی مقدار نہیں خرید سکتا جو ساری رسد کو جذب کرلے۔
فرض کریں کہ مالٹے یا انار انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہوں، لیکن چونکہ ان کی شیلف لائف چند دن ہوتی ہے، اس لیے عوام ان کی خریداری محدود مقدار تک ہی رکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیمتیں گرنے کے باوجود مجموعی کھپت میں وہ اضافہ نہیں ہوسکا جو بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والی رسد کو متوازن کر پاتا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی ٹائیکون گوتم اڈانی پر امریکہ میں فرد جرم عائد
زرعی معیشت پر اثرات
اس ساری صورتحال کا ایک اور پہلو بھی ہے: زرِمبادلہ کا نقصان۔ جو پھل پہلے بیرون ملک اچھی قیمت پر فروخت ہوتے تھے، وہ اب ملک کے اندر بہت کم قیمت پر بیچے جا رہے ہیں، اور کئی مقامات پر تو بازار میں پڑے پڑے خراب بھی ہو رہے ہیں۔ یوں ایک طرف کسانوں کی محنت ضائع ہو رہی ہے، دوسری طرف ملکی معیشت کو برآمدات کی مد میں بھاری نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون بیوٹیشن سے چلتی کار میں زیادتی کی کوشش، مزاحمت پر قتل کر دیا گیا
مقامی منڈی کی چیلنجز
پھلوں کا سستا ہونا عام صارف کے لیے وقتی طور پر اچھی خبر محسوس ہوسکتا ہے، لیکن زرعی معیشت کے لیے یہ ایک چیلنج بن جاتا ہے، کیونکہ منڈی کے عدم توازن کے باعث کسان اپنی پیداوار کی قیمت حاصل نہیں کر پاتے۔ اگر صورتحال طویل مدت تک برقرار رہے تو اس کے اثرات اگلے سیزن کی کاشت، کسانوں کی آمدنی، اور مجموعی زرعی پیداوار پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
خلاصہ اور مستقبل کے حوالے سے مشورے
اصل مسئلہ قیمتوں کا نہیں بلکہ تجارت میں رکاوٹ کا ہے۔ کئی خطے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تجارت پر ہی معاشی طور پر ٹکے ہوتے ہیں۔ جب کبھی غصّے یا سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر ایسی تجارت رکتی ہے تو نقصان دونوں اطراف ہوتا ہے—فرق صرف شدت کا ہوتا ہے۔ افغانستان چونکہ اپنی زرعی برآمدات کے لیے چند ہی بڑے تجارتی راستوں پر انحصار کرتا ہے، اس لیے وہاں اثر زیادہ فوری اور زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔
اگر افغان اور پاکستانی منڈی کو اپنی فصلوں کی مناسب قیمت چاہیے تو ضروری ہے کہ اس کی مصنوعات کی رسائی بیرونی مارکیٹوں تک برقرار رہے۔ بصورتِ دیگر مقامی سطح پر قیمتیں گرتی رہیں گی اور کسانوں کی محنت ضائع ہوتی رہے گی، جو کسی بھی زرعی ملک کے لیے اچھا اشارہ نہیں۔ میرے خیال میں تعلقات خراب ہونے کے باوجود دو طرفہ تجارت قائم رہنی چاہیے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔








