سکھر، خانیوال، کوہاٹ، شاہین آباد اور کوٹری میں محکمہ ریلوے نے فیکٹریاں قائم کی ہوئی ہیں، بدقسمتی سے ان میں سے ایک فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گئی۔
مصنف کی تفصیلات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 314
یہ بھی پڑھیں: فیصل آباد: شہد کی آڑ میں منشیات دبئی سمگل کرنے کی کوشش ناکام، خاتون گرفتار
کنکریٹ سلیپر کی تیاری کا عمل
لہٰذا خودکار مشینوں کی مدد سے فولادی سانچوں میں لوہے کے وزنی سریا، پلیٹیں اور مقررہ جگہ پر نٹ بولٹ رکھ کے اس پر انتہائی احتیاط سے سیمنٹ اور بجری پر مشتمل کنکریٹ بھر دی جاتی ہے۔ پھر اس کو ایک مشینی عمل سے مسلسل ہلایا جلایا جاتا ہے تاکہ اس میں ہوا کے بلبلے نہ جائیں۔ اس دوران اس عمل کو ایک تواتر سے مختلف امتحانوں سے گزار کر اس کی طاقت کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
خشک کرنے کا عمل
کنکریٹ کو اوپر سے ہموار کر کے اور ذرا خشک ہونے پر اسے سانچوں میں سے نکال کر ایسے چیمبر میں رکھا جاتا ہے جہاں پانی کے چھڑکاؤ یا بھاپ کی مدد سے سیمنٹ کی مسلسل ترائی ہوتی رہتی ہے اور پھر وقت پورا ہو جانے پر ان کو خشک کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح تیار کئے گئے ایک سلیپر کا وزن تقریباً 300 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ یہ سارا کام خود کار طریقوں سے بڑی تعداد میں ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مریم پنجاب کے ہسپتالوں کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتیں، اپنا علاج باہر سے کراتی ہیں: بیرسٹر سیف
سلیپروں کی ترسیل
بعد ازاں متعدد سلیپروں کے بیج بنا کر انھیں ایک کرین سے اٹھا کر مال گاڑیوں پر لاد کر مطلوبہ جگہ روانہ کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کے زیتون کے تیل نے امریکہ میں ہونیوالے مقابلے میں تمغہ جیت لیا
پاکستان میں فیکٹریاں
پاکستان میں سکھر، خانیوال، کوہاٹ، شاہین آباد اور کوٹری کے مقام پر محکمہ ریلوے نے یہ فیکٹریاں قائم کی ہوئی ہیں۔ کنکریٹ سلیپر بنانے کی سب سے پہلے فیکٹری 1967ء میں سکھر میں قائم کی گئی تھی۔ اس کے بعد 1979ء اور 1981ء کے دوران 4 مزید فیکٹریاں لگ گئیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے شاہین آباد فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گئی اور کوٹری میں بھی اسی وجہ سے پیداوار بہت کم رہ گئی ہے۔ البتہ باقی تینوں فیکٹریوں میں پیداوار پوری طرح جاری ہے اور ضرورت کے مطابق سلیپروں کی تیاری ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان آج انڈر 18 ایشیا ہاکی کپ کا فائنل جاپان سے کھیلے گا
مستقبل کی ضرورت
ابتداء سے لے کر اب تک ان چاروں فیکٹریوں میں 1 کروڑ 15 لاکھ سے زیادہ سلیپر تیار کئے جا چکے ہیں۔ مستقبل میں جب نئی پٹریوں مثلاً ایم ایل اور وسطی اور مغربی لائنوں پر نئے سرے پٹریاں بچھانے کا کام شروع ہو گا تو ان سلیپروں کی مانگ میں یکدم اضافہ ہو جائے گا، جس کے لیے محکمہ ریلوے سوچ رہا ہے کہ اگر ایسا موقع آیا تو وہ یہ کام ٹھیکیداری کی بنیاد پر باہر کی کمپنیوں سے بھی کروا لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں 2 مختلف مقامات پر مبینہ پولیس مقابلے، 2 ڈاکو ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
ریلوے اکیڈمی والٹن
یہ پاکستان ریلوے کا انتہائی جدید تربیتی ادارہ ہے جو آج کل ریلوے کی بے بسی اور اس کے مسلسل زوال پذیر اور بگڑتے ہوئے حالات کے باوجود بھی پوری شان و شوکت سے قائم ہے۔ اس پر محکمے والے آج بھی اتراتے ہیں اور باہر سے آنے والے مہمانوں کو بھی فخریہ طور پر یہاں آنے اور اس کا معائنہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
تاریخی پس منظرو
پاکستانی علاقے میں ریلوے کی آمد کے مختلف شعبوں میں ملازمین کی مسلسل تربیت کی ضرورت محسوس ہوئی تو 1925ء میں پنجاب کے شہر لائل پور (اب فیصل آباد) میں ریلوے ٹریننگ سکول کا آغاز کیا گیا، جس میں ابتدائی طور پر ریلوے ملازمین کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس کی اہمیت اور بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر یہ محسوس کیا گیا کہ اس کو کسی وسیع و عریض اور اہم مقام پر اس کی ضرورت کے مطابق تعمیر کیا جائے۔ جس کا منصوبہ اس وقت نارتھ ویسٹرن ریلوے کے جنرل مینجر کرنل سی ای والٹن نے پیش کیا تھا۔ منظوری کے بعد اس مقصد کے لیے لاہور میں 77 ایکڑ زمین حاصل کی گئی اور اس پر تعمیراتی کام شروع ہو گیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








