بھارت کا سیاسی رنگ سامنے ہے، سیاسی لیڈروں کی گن کلچر والی گھاتیں ظاہر ہو رہی ہیں، اسے کہتے ہیں ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور

مصنف: رانا امیر احمد خاں

قسط: 224

بھارت کا فلسفہ امن

”دیکھا دیکھا“…یہ بھرت ورما امن و آشتی کے حوالے سے دراصل اکھنڈ بھارت کی بات کر رہا ہے“ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ارشاد چوہدری نے چائے کی خالی پیالی میز پر پٹختے ہوئے کہا۔ سینئر جرنلسٹ سرفراز سید نے وضاحت کی کہ ”بھرت ورمائی فلسفے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت ہمسایہ ممالک یعنی نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان اور پاکستان پر فوجی کارروائی کر کے انہیں ہمیشہ کے لیے اپنے نیچے لگا لے اور اپنی طاقت کی دہشت سے خطے میں اپنی مرضی کا امن قائم کر لے“۔ راقم نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ بھارتی ٹی وی پروگرام دیکھنے کا ایک فائدہ تو ہوا کہ بھارتی دانشوروں کے نزدیک باہمی امن اور بھائی چارے کا مطلب کیا ہے…ہماری سمجھ میں آ گیا ہے۔ بھارت کا مافی الضمیر ہماری آنکھوں کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ ظفر علی راجا نے ارشاد فرمایا کہ ”تھوڑی دیر پہلے ہم نے بھارت کا ثقافتی رنگ دیکھا تھا اور ثقافتی لیڈروں کی فن کلچر والی باتیں سْنی تھیں۔ اب بھارت کا سیاسی رنگ ہمارے سامنے ہے اور سیاسی لیڈروں کی گن کلچر والی گھاتیں ظاہر ہو رہی ہیں۔ اسے کہتے ہیں ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور“۔

کان پور میں اہل علم و فن سے ملاقاتیں

اگلی صبح سجاد بٹ کے معدہ پرور مقولے پر عمل کرتے ہوئے ایک بھرپور ناشتے کے بعد ہم اپنے ہوٹل استقبالیہ پر آئے تو پتہ چلا کہ آج کے پروگرام کے مطابق کانپور کے نائب صدر شکیل صدیقی اپنے ایک دوست سید نوشاد عالم منصوری اور کچھ دیگر افراد کے ہمراہ لابی میں ہمارے منتظر ہیں۔ منصوری صاحب کبھی سٹوڈنٹ لیڈر ہوتے تھے اور اب کنسٹرکشن انڈسٹری اور سماجی بھلائی کے کاموں میں سرگرم عمل ہیں۔ منصوری صاحب چند منٹوں میں ہمارے ساتھ ایسے گْھل مِل گئے جیسے ہماری ان کی برسوں کی شناسائی ہو۔ راقم نے اپنے سابقہ دورۂ بھارت کی روشنی میں منصوری صاحب کو اپنے محسوسات سے آگاہ کیا کہ بھارتی مسلمان کسی انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنی مسلمان شناخت کو کھلے انداز میں ظاہر کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور ان کے لباس اور حلیے بھی لوکل ہندو سکھوں سے مشابہ نظر آتے ہیں۔

نوشاد عالم منصوری نے ایک لمحے کے لیے اپنا سر کھجایا، دائیں بائیں دیکھا اور بولے، آپ کا مشاہدہ کافی حد تک درست ہے لیکن یہ سلوک صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ بھارت کی تمام اقلیتیں اس امر کی شاکی ہیں کہ انہیں بھارتی ہندو کے برابر درجہ نہیں دیا جاتا۔ سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں بھی مسلمانوں کو اپنی آبادی کے تناسب سے جگہ نہیں دی جا رہی ہے جو ان کا حق بنتا ہے۔ منصوری صاحب نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ کانپور میں تقریباً 35 فیصد مسلمان ہیں اور اس شہر میں مسلمانوں کے حالات نسبتاً بہتر ہیں۔ کیونکہ یہاں مسلمان چمڑے کے کاروبار اور مصنوعات کی ایکسپورٹس سے گزشتہ 200برسوں سے وابستہ ہیں۔ کانپور کے بنے ہوئے جوتے، چپل، بیلٹ، خواتین کے پرس، دستانے، جیکٹ اور بیگ مسلمان دستکاروں کی محنت کے سبب ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ کانپور کے مسلمان تعلیم، قانون اور دیگر شعبہ جات میں بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

نوٹ

(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...