مستقیم بابا کا خاندان ٹھاکروں کے مظالم کا نشانہ بن چکا تھا، اس نے پھولن دیوی کے سر پر ہاتھ رکھا، حوصلہ بڑھایا اور ظالموں کے خلاف لڑنے کی تلقین کی۔
مصنف کی معلومات
رانا امیر احمد خاں
قسط: 225
یہ بھی پڑھیں: شاہین صہبائی کو ایکس پر ڈی ایچ اے کے پلاٹ فروخت نہ ہونے کا دعویٰ مہنگا پڑ گیا
پھولن دیوی کی کہانی
نوشاد عالم منصوری نے مشہور ڈاکو عورت پھولن دیوی کی کہانی سنائی کہ کس طرح ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کو گاؤں کے ٹھاکروں نے کم سنی ہی میں اسے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ جوانی کی دہلیز تک آتے آتے اسے سینکڑوں دفعہ ریپ اور گینگ ریپ کیا گیا۔ علاقے کی تمام بے سہارا اور غریب لڑکیاں ایسے ہی مظالم کا سامنا کرنے اور خاموش رہنے پر مجبور تھیں۔ ان میں پھولن دیوی واحد لڑکی تھی جس کے دل میں ظلم کے خلاف نفرت اور انتقام کا شعلہ بھڑک رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: منی بجٹ اور پٹرلیم مصنوعات پر جی ایس ٹی لگانے سے متعلق اہم فیصلہ
مستقیم بابا کا کردار
ایک مسلمان ڈاکو مستقیم بابا، جس کا خاندان ٹھاکروں کے مظالم کا نشانہ بن چکا تھا، اس نے پھولن دیوی کے سر پر ہاتھ رکھا، اس کا حوصلہ بڑھایا اور اسے ظالموں کے خلاف لڑنے کی تلقین کی۔ پھولن دیوی نے لالہ رام اور سیری رام ڈکیٹ کو اپنے ساتھ ملایا اور مستقیم بابا کی طرح ٹھاکروں کے گھروں میں ڈاکے ڈال کر لوٹا ہوا مال غریبوں اور مظلوموں میں تقسیم کرنے لگی۔
یہ بھی پڑھیں: ابھیشیک شرما نے ایشیاء کپ میں محمد رضوان کا ریکارڈ توڑ دیا
بغاوت اور انتقام
آخرکار وہ دن بھی آ گیا جب اس نے بندوق کی نوک پر 17 بڑے ٹھاکروں کو ایک لائن میں کھڑا کیا اور گولیوں کی ایک ہی باڑ سے اگلے جہاں میں پہنچا دیا۔ کانپور بار کے ایڈووکیٹ جسووال اور ایک مسلمان قانون دان سعید نقوی نے پھولن دیوی کا مقدمہ اس انداز سے لڑا اور حقائق اس طرح پیش کئے کہ غریب عوام کی ہمدردیاں پھولن دیوی کے پلڑے میں آ گئیں۔ بعدازاں عدالتوں سے بری ہونے پر پھولن دیوی نے ان پڑھ ہونے کے باوجود جب سیاست میں قدم رکھا تو غریب عوام نے اسے اتنے ووٹوں سے نوازا کہ وہ ظالم طبقے کے نمائندوں کو شکست دے کر اسمبلی میں پہنچ گئی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کی 6 ماہ سے “غائب” خاتون رکنِ کانگریس ایسی جگہ سے مل گئی کہ ہنگامہ برپا ہوگیا
1857ء کی جنگ آزادی اور مسلم قربانیاں
نوشاد عالم منصوری نے مزید بتایا کہ 1857ء کی انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں بھی کانپور کے مسلمانوں نے جھانسی کی رانی اور نانا فزلولیس کو زبردست حمایت سے نوازا تھا اور بے شمار جانوں کی قربانیاں دی تھیں۔ ظفر علی راجہ نے بھی منصوری صاحب کو یاد دلایا کہ مچھلی بازار والی مسجد کے ساتھ قریب واقع مندر کے مقابلے میں میونسپل کمیٹی کی زیادتی کے خلاف بھی بہت سے مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کوٹ لکھپت جیل میں بند پی ٹی آئی رہنماؤں کا ایک اور خط
مسجد کی بحالی کی کوششیں
جب 2 اگست 1913ء کو مسلمانوں نے ایک جلوس کی صورت میں مسجد کا مسمار شدہ حصہ دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی تو ڈپٹی کمشنر کے حکم پر جلوس کو گولیوں کی بوچھاڑ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی سال اگلے ماہ مولانا محمد علی جوہر اور وزیر حسن پر مشتمل ایک وفد آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے انگلستان گیا اور کوشش بسیار کے بعد وائسرائے لارڈ ہارڈنگ کے لیے خصوصی ہدایات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کوشش کے نتیجہ میں 16 اکتوبر 1913ء کو لارڈ ہارڈنگ اور حکومت ہند کے نمائندے سید امام علی کانپور پہنچے۔ انہوں نے مسجد کی آرائش اور بحالی کے لیے اپنی طرف سے عطیہ دیا۔ مسجد کا مسمار شدہ حصہ دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ حکومت نے تمام گرفتار شدہ مسلمانوں کو رہا کرکے ان کے خلاف قائم تمام مقدمات واپس لے لیے۔
تحریک پاکستان کی یاد
تحریک پاکستان کے حوالے سے بات ہوئی تو ہم نے سید منصور کو 30 مارچ 1941ء میں منعقد ہونے والی "کانپور کانفرنس" کی یاد بھی تازہ کروائی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








