دروازہ کھولیں جلدی
مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 358
یہ بھی پڑھیں: ونڈ انرجی ذرا سی منصوبہ بندی کے ساتھ بہت بڑا اثاثہ بن سکتی ہے: وزیر اعلیٰ پنجاب
ایک نازک لمحہ
بس ہمیں تو "چیزہ" ہی لینا تھا؛ مشہود اور میں اسمبلی اجلاس کے بعد گھر جا رہے تھے۔ گورنر ہاؤس کے سامنے سے شاہراہ ایوان تجارت پر مڑے اور چلڈرن لائیبریری کے پاس پہنچے تو بس سٹاپ پر ہمیں ایک چھوٹی عمر کی نوخیز کلی کھڑی نظر آئی۔ سوچا اس کو ساتھ بٹھاتے ہیں۔ کار روکی تو مشہود نے حفظ ماتقدم کار کا پچھلا دروازہ لوک کر دیا۔ وہ کلی قریب آئی تو اس کے حسن کے لشکارے نے ہمیں دنگ کر دیا۔ اس نے پچھلا دروازہ کھولنا چاہا مگر وہ بند تھا۔ "مشہود کے قریب آ کر بولی؛" دروازہ کھولیں جلدی"۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا؛ "ہم نے تو صرف قریب سے آپ کو دیکھنا تھا۔ ساتھ نہیں لے جانا۔" اسے اپنے حسن پر ناز تھا؛ "بولی؛ واقعی۔ مجھ پر تو لوگ مر۔۔۔" اس کا فقرہ پورا ہونے سے پہلے ہی ہم وہاں سے رفو چکر ہو چکے تھے۔ یہ ہماری حماقت تھی یا شرافت پتہ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 39 سال کی عمر میں کرسٹیانو رونالڈو کا شاندار ‘فلیش بیک’ گول: مداحوں کی نظر 1000 ویں گول پر
باغ جناح کی خوبصورتی
باغ جناح؛ باغ جناح میں جو بات ہے شاید ہی لاہور کے کسی اور باغ یا پارک میں ہو۔ ماضی کا لارنس گارڈن، سلطنت عثمانیہ کے خلاف جا سوسی کرنے والے کرنل لارنس کے نام کی منسوب۔ یہاں کے قدیم گھنے درخت، جن میں سے بعض سو سال بھی زیادہ پرانے ہیں، دور دور تک اپنی چھاؤں بکھیر کر روشن دن کی دھوپ کو روک لیتے ہیں۔ درختوں کی چھاؤں میں بیٹھنے والے یا سیر کو آنے والوں کی طرح، یہاں کے پرندے بھی کہیں اور نہیں جاتے ہیں۔ اس باغ کا پرفضا ماحول انہیں کہیں اور جانے ہی نہیں دیتا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ماڈل ٹاؤن کے کسی قدیم واسی کو ماڈل ٹاؤن سے باہر رہنا عذاب لگتا ہے۔ میں اور مشہود کبھی اس باغ میں آن نکلتے اور سردی کی سنہری دھوپ کا مزہ لیتے، کبھی کرکٹ میچ دیکھ لیتے تو کبھی باغ میں لمبی واک کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: میدانی علاقے شدید دھند کی لپیٹ میں آگئے، موٹر وے بند
رات کی تنہائی
رات کے دوسرے پہر اس باغ میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ ڈرا دینے والا سناٹا۔ اُس وقت کبھی ادھر آنا ہو تو آپ کو صرف اپنے ہی قدموں کی چاپ سنائی دے گی۔ اگر درختوں کے جھنڈ میں بیٹھا کوئی پرندہ حرکت کرے تو سناٹے میں عجیب سی سرسراہٹ پھیل جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک سنسان رات، اسمبلی سے ہم رات گئے گھر کے لئے نکلے۔ نہ جانے کیوں خیال آیا باغ میں چلتے ہیں۔ اس سرد اور تاریک رات دس پندرہ منٹ کی واک نے پہلے جسم میں کپکی طاری کی اور پھر خون کی گرمائش نے ہمیں یہاں کے سرد ماحول سے ہم آہنگ تو کر دیا مگر سناٹے دار تنہائی نے ڈرا دیا تھا۔ اُس وقت یہاں ہم تھے، دھندلی گہری رات تھی یا کہیں کوئی دبکا چھپا جانور یا پرندہ۔
یہ بھی پڑھیں: کینیڈا میں کپل شرما کے کیفے پر فائرنگ
دن کی رونق
دن کے یہاں اپنے نظارے ہیں۔ سردی میں کرکٹ گراؤنڈ کے قریب رکھے بنچ پر کینو یا موسمی کھانے کا جو لطف یہاں ہے کہیں اور نہیں۔ اس تاریخی کرکٹ گراؤنڈ پر ٹیسٹ میچ بھی کھیلا گیا۔ اس گراؤنڈ سے بھی دو طرح کی یادیں وابستہ ہیں۔ پہلی؛ جب ہم یہاں کرکٹ میچ دیکھنے آتے تھے۔ بابر، خرم اور میں نے یہاں ہوئے بہت سے فرسٹ کلاس کرکٹ میچز کے گواہ ہیں۔ وہ ہمارا لڑکپن تھا۔ دوسرا؛ جب خود یہاں میچ کھیلتے تھے۔ کئی سال پہلے مشہود کے ساتھ یہاں آیا تو درخت اُسی شان سے کھڑے تھے، پرندے ویسے ہی شور مچا کر اپنے ہونے کی اطلاع دے رہے تھے۔ البتہ نہ تھے تو وہ جوانی کے دن مگر ان دنوں کی یادیں تھیں۔ (جاری ہے)
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








