اس ملک میں سفارش، اپنی بات منوانے اور نالائق آدمی کو اونچی مسند پر بٹھانے کا رواج ہے، “جھولی چک“ اور کاسہ لیسوں کو آگے آنے کا موقع ملا
مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 359
یہ بھی پڑھیں: لاہور چڑیا گھر میں تفریحی سہولتوں پر 50 فیصد ڈسکاؤنٹ
کہانی کا تعارف
قصہ چوہدری کا؛ اس ملک میں سفارش، اپنی بات منوانے اور نالائق آدمی کو اونچی مسند پر بٹھانے کا رواج ہے۔ بہت سے لوگ اداروں کے سربراہ اس لئے نہیں بنائے گئے کہ وہ اصول اور قانون کی خلاف ورزی پر راضی نہ تھے۔ یوں "جھولی چک" اور کاسہ لیسوں کو آگے آنے کا موقع ملا بھی اور خوب دیا بھی گیا۔ انہوں نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا بھی اور فائدہ پہنچایا بھی۔ زن زر اور زمین کے پجاریوں کو ہمیشہ اسی مذہب کے ماننے والوں نے ہی زیادہ متاثر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بکریوں اور بھیڑوں کا جھنڈ ٹرک کی زد میں آگیا
چوہدری کا کردار
سیاست میں ایک چوہدری بھی ایسا ہی کردار تھا جو اپنے چچا کے بل بوتے پر ککھ سے ارب پتی بن گیا۔ میں آپ کو 2002-2003 میں لیے چلتا ہوں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس فلک شیر ریٹائر ہوئے تھے۔ سنیارٹی میں اگلا نام جسٹس فخر النساء صاحبہ کا تھا۔ انہوں نے "کمپنی بہادر" کی بات ماننے سے انکار کر دیا جو فیصلے اور کام اپنی مرضی کے چاہتے تھے۔ ایک جھولی چک کو چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ وکلاء اور عدلیہ کی طرف سے اس تعیناتی پر احتجاج ہوا مگر یہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔
یہ بھی پڑھیں: متوقع تحریک عدم اعتماد ؛پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کو استعفیٰ دینے کیلئے مہلت دیدی
عدلیہ کی تجزیہ
اُس کے بھتیجے کی چاندی ہو گئی۔ ایک عام سا وکیل راتوں رات بڑا "اہم" بن گیا۔ فرنٹ مین کا کردار ادا کیا اور دھن بھی اس پر مر مٹا۔ انہی دنوں لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے پنجاب میں ایک ہائی پاورڈ کمیٹی بنی تھی جس کی سربراہی صاحب کے پاس تھی۔ صغریٰ امام (جھنگ)، دانیال عزیز (ناروال)، غلام عباس (چکوال) اور کچھ لوکل گورنمنٹ کے ماہرین کمیٹی کے ممبر تھے۔ سی ایم سیکرٹریٹ سے چوہدری کا بطور ممبر کمیٹی نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ دوران اجلاس یہ بے ربط گفتگو کرتے اور ایک دفعہ تو صغریٰ امام نے ان کی بے ربطی پر خوب جھاڑ پلا دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: شبقدر میں زبانی تکرار پر شوہر نے بیوی اور بیٹے کو قتل کردیا
چوہدری کی قابلیت
اُس کی قابلیت صرف اور صرف چیف جسٹس سے قریبی رشتہ داری تھی۔ سیاسی طور پر اُسے کوئی جانتا نہیں تھا۔ یہیں دور جہلم کے اس خاندان کے عروج کا زمانہ تھا۔ ایک بھائی گورنر پنجاب، ایک چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، بیٹا ناظم ضلع جہلم اور بھتیجا وکیل۔
یہ بھی پڑھیں: سابق نیوی افسران کی سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد روکنے کا حکم امتناع ختم
مولانا کا کردار
مولانا؛ پرویز الٰہی حکومت کے مشیر داخلہ۔ یہ رنگین مزاج مولوی ہر دور میں حکومتی مسند کا حصہ رہے۔ انتہائی فربہ یہ مولانا ذہین اور اندر تک کی خبریں رکھتے تھے۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار تو صاحب سے ملنے ضرور آتے تھے۔ میرا ایک ڈرائیور ممتاز کچھ عرصہ ان کے ساتھ بطور سرکاری ڈرائیور ڈیوٹی کرتا رہا تھا؛ "مولانا کی رنگینی اور سنگینی کی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔" اُس دور میں مولانا میں وہ سب عیب بکثرت موجود تھے جن کی اسلام ممانعت کرتا اور بچنے کا حکم دیتا ہے۔ ممکن ہے بعد میں وہ اچھے مسلمان بن گئے ہوں مگر اس دور میں وہ ہدایت یافتہ ہر گز نہ تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








