ہر خوبصورتی کے ساتھ ایک عذاب بھی ہوتا ہے
مصنف کا تعارف
شہزاد احمد حمید
قسط: 362
یہ بھی پڑھیں: افسران عوامی فلاح کو ترجیح دیں تو رول ماڈل بن سکتے ہیں: سارہ سعید کا سول سروسز اکیڈمی میں تقریب سے خطاب
انبساط خاں کی کہانی
انبساط خاں اپنے کالج کے دنوں میں ”مس کنیئرڈ“ کالج رہی تھیں۔ لاہور میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ ہماری جوانی کے دنوں میں لاہور میں 2 ہی خواتین کا چرچا تھا، فلم ایکٹرس انجمن اور انبساط خاں۔ لاہور کی معروف شخصیت سے شادی کی، دلوں پر راج کیا اور قسمت پر نازاں۔ روپے پیسے کی فراوانی تھی اور پھر یہ کسی کی بد نظر کا شکار ہوئی اور برے ہال اور مندے دن دیکھے۔ عروج و زوال اللہ کے ہاتھ ہے۔ عروج میں شکر اور زوال میں صبر اللہ کو پسند ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مستقبل میں کام ’’اختیاری‘‘ اور پیسہ ’’غیر اہم‘‘ ہو جائے گا،ایلون مسک کی پیشگوئی
سیاسی زندگی
خصوصی نشست پر پیپلز پارٹی کی ایم پی اے تھیں۔ ہمارے دفتر آتی رہتی تھیں۔ کینسر جیسی موذی مرض کا شکار ہوئیں تو حکومتی خرچہ پر علاج کے لئے ولایت گئیں۔ صحت یاب ہو کر واپس آئیں۔ الحمد اللہ۔ صاحب کی بے حد ممنون تھیں کہ یہ نیکی بھی اللہ نے صاحب کے کھاتے میں ہی لکھی تھی۔ انبساط اندر باہر سے ایک جیسی تھی۔ کوئی بناوٹ کوئی تنوع نہیں تھا۔ جو دل میں ہوتا وہی زبان پر۔ دوغلاپن سے ناواقف۔
یہ بھی پڑھیں: انسانی جسم کو اندر سے کھانے والی فنگس کے پھیلاؤ میں اضافہ
فرزانہ راجہ کا تعارف
فرزانہ راجہ پیپلز پارٹی کی مخصوص نشست پر ایم پی اے تھیں۔ اچھی بولنے والی۔ بعد میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن رہیں۔ سندھی وڈیرے سے شادی کی، جو نیب کا ملزم تھا اور بہت عرصہ لاہور کے پی آئی سی کے ”آئی سی یو“ میں مہمان رہا۔ یہ ہے اس ملک کا قانون۔ طاقت ور کے لئے سزا اور قید بھی آزادی ہے جبکہ کمزور کے لئے آزادی بھی قید ہی ہے، جبر مسلسل۔ صاحب ان کے میاں کی تیمارداری کے لئے گئے تو میں بھی ساتھ تھا۔ یہ میاں بیوی آئی سی یو میں ایسے خوش تھے جیسے گھر میں ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: رابعہ بٹ کی سوشل میڈیا پر طویل خاموشی، مداح تشویش میں مبتلا
نیلو فر بختیار کی شخصیت
نیلو فر بختیار اس دور میں وفاقی وزیر تھیں۔ وہ بڑی متحرک اور سوشل خاتون تھیں۔ شاندار شخصیت اور اتنا ہی نفیس لباس پہنتی تھیں۔ صاحب سے ان کی یاد اللہ تھی کہ دونوں ایک ہی شہر سے تھے۔ ان کے جوانی سے بڑھاپے تک کے قصے انسان کو انگشت بدندان کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں؛”ہر خوبصورتی کے ساتھ ایک عذاب بھی ہوتا ہے۔“ ان کے ساتھ جو عذاب تھا اس سے کئی بار ملاقات رہتی کہ وہ میرے ایک جاننے والے”مزمل“ کا چھوٹا بھائی اور ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا ملازم تھا۔ میڈم آسمان تھی تو وہ زمین کی تہہ۔ عجیب کیمسٹری تھی اُن میں۔ میڈم سے میری پہلی ملاقات غالباً 95 94/ میں ”لائینز کلب“ کھاریاں کے ایک اجلاس میں ہوئی تھی جہاں وہ بحیثیت صدر افتخار لڈر کی دعوت پر تشریف لائیں تھیں۔ مشرف دور کے بعد یہ گوشہ نشین ہو گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا شوگر سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا اصولی فیصلہ
عروج و زوال کا فلسفہ
اختیار اور اقتدار کے ایوانوں سے کبھی دلربا چہروں کی جلوہ نمائی من آنگن میں مسرت کے چراغ روشن کرتی ہے تو کبھی مکرو رویوں کی عکس نمائی گھنِ کی کیفیت کو بڑھا دیتی ہے۔ جہاں ِ حیرت و حسن جلوہ گر ہو کر آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے تو مکرو چہروں کی بد نمائی دل میلا کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ یہاں ایک طرف زوال کا ظالمانہ انداز عروج پر ملتا ہے اور دوسری طرف محبت، محنت اور خلوص کے اطوار اپنے حسن سے اسیر بنائے رکھتے ہیں۔
(جاری ہے)
کتاب کی اشاعت
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








