ہمارے ہاں رواج سا بن گیا ہے کہ نوکری کے بعد چاکری کرو، آج بھی افسوس ہے، جو ڈر گیا وہ مر گیا، شاید ڈرنا نہیں چاہیے تھا، اپنی اپنی قسمت ہے۔
مصنف کی جان پہچان
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 363
صحافی کالونی راولپنڈی؛
یہ بھی پڑھیں: اے آر رحمان اور اہلیہ سائرہ بانو کی 29 سال بعد علیحدگی: ’ٹوٹے ہوئے دلوں کے بوجھ سے خدا کا تخت بھی کانپ سکتا ہے‘
پلاٹ کی کہانی
ہاں یاد آ گیا، صاحب نے مجھ پر اور مشہود پر مہربانی کی اور "صحافی کالونی راولپنڈی" میں دس دس مرلہ کا پلاٹ الاٹ کرا دیا۔ خیر، مشہود تو اس پلاٹ کے لئے qualifying criteria پورا کرتا تھا، مگر مجھے اپنی بیگم عظمیٰ کو ٹی وی اینکر ظاہر کر کے الاٹ کرانا پڑا۔ مشہود نے اسے اپنی بیٹی "گڑیا" کی شادی کے لئے پانچ لاکھ میں بیچ دیا، جبکہ مجھے ڈرایا گیا کہ شہباز شریف کی حکومت ہے، وہ راجہ صاحب کو پسند نہیں کرتا۔ اور نہ ہی میں صحافی تھا اور نہ میری بیگم ٹی وی اینکر، کہ کہیں شکایت ہو اور تم سے پلاٹ ہی واپس لے لیا جائے۔ لہٰذا میں نے اسے آٹھ لاکھ میں بیچ دیا، جس کا مجھے آج بھی افسوس ہے۔ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ شاید ڈرنا نہیں چاہیے تھا۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہو۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیر ستان میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 4 خوارج ہلاک
بھائی جان خالد کی ایکسٹینشن
میرے بڑے بھائی خالد فاروق ریٹائرمنٹ کے بعد 2 بار نوکری میں ایکسٹینشن لے چکے تھے اور اب تیسری باری کی تیاری کر رہے تھے۔ ہمارے ہاں یہ بھی رواج بن گیا ہے کہ نوکری کے بعد چاکری کرو۔ ان کی فائل سی ایم کے پاس بھجوانے کے لئے ہمارے دفتر آئی تو بھائی جان نے مجھ سے کہا؛ "صاحب سے فائل سی ایم کو جلدی بھجوا دیں، جی ایم سکندر (یہ چیف منسٹر کے پرنسپل سیکرٹری، سمجھ دار اور رنگین انسان تھے) سے میری بات ہو چکی ہے۔" اس سے پہلے مجھے امریکہ جانا تھا، جہاں میرے بڑے بھائی زاہد سلیمان (خالد بھائی سے چھوٹے) میامی میں مقیم تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے گھر ٹھہرانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔(یہ کہانی "غیر ممالک کے سفر" والے حصے میں تفصیل سے بیان کروں گا) صاحب کو اس بات کا غصہ تھا۔ جب یہ سمری صاحب کے پاس پہنچی تو صاحب نے ایکسٹینشن سے انکار کر دیا۔ میں نے صاحب سے درخواست کی کہ "سر! بھائی جان نے والدہ کی بھی بڑی خدمت کی ہے۔ اسی خدمت کے عوض آپ سمری سی ایم صاحب کو بھجوا دیں۔" صاحب میرے اصرار پر اس شرط پر مانے کہ خالد صاحب خود میرے پاس آئیں گے۔ ساتھ یہ بھی کہا؛ "شہزاد صاحب! برا نہ منائیں، آپ کے بھائی کسی کام کے نہیں"۔ گو میں نے تو کبھی بھی انہیں سو تیلا نہیں سمجھا تھا، لیکن انہوں نے ہمیں سمجھا۔ خیر، کوئی گلہ نہیں۔ اپنی اپنی قسمت ہے。
یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور: میڈیا میں مودی حکومت کے تماشے کے سوا کچھ نہیں تھا۔۔۔ بھارتی خاتون رکن پارلیمنٹ کی ’’دبنگ‘‘ تقریر
آخری ملاقات اور فیصلے
بھائی جان بلاوے پر صاحب کے پاس اپنی سمری کے لئے آئے تو صاحب نے اس سمری پر دستخط کرنے سے پہلے کہا؛ "خالد صاحب! میں آپ کی ایکسٹینشن کے حق میں نہیں ہوں، لیکن میں شہزاد صاحب کو انکار نہیں کر سکتا تھا۔ سمری اسی کے کہنے پر بھجوا رہا ہوں۔" صاحب نے میرا مان و سمان بہت بڑھا دیا تھا۔ اقبال سدو زائی بھی ان کے ہمراہ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت ادارہ جاتی اصلاحات کے ایجنڈے پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہے:وزیرِ خزانہ پنجاب
خصوصی درخواست
کیا بچی کو اس کے باپ کا نام دلوا سکتے ہیں؟
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








