ڈاکٹر کاجل اور ان کی شاگرد نوجوان لڑکیوں نے علامہ اقبال کی مشہور نظم ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ پر کلاسیکل رقص کا مظاہرہ کیا
مصنف کی تفصیلات
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 235
یہ بھی پڑھیں: یہ اپنا پیارا وطن ہے جہاں کچھ لوگوں کو ریل گاڑی میں کسی پنجرے میں قید زرافے کی طرح کھڑکی یا دروازے سے گردن باہر نکالے بنا چین نہیں پڑتا
ثقافتی پروگرام کا آغاز
کھانا ختم کرنے کے بعد ہم لوگ ہال میں واپس آئے تو دیکھا کہ ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر میں ثقافتی پروگرام کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلا رقص ڈاکٹر چترن جن سہانی کے حصے میں آیا۔ طبلے کی تھاپ پر قدم اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر چترن سٹیج کے ایک دروازے سے نمودار ہوئے اور سٹیج پر کھڑے ہو کر سامعین کو ایک فرشی سلام کیا۔
یہ بھی پڑھیں: چیمپئینز ٹرافی، پاکستان کو کس قسم کا ہائبرڈ ماڈل پیش کیا جائے گا؟
ڈاکٹر چترن کا کلاسیکل رقص
اس کے ساتھ ہی جامنی ساڑھیوں اور بلاؤز میں ملبوس 4 لڑکیاں نمودار ہوئیں۔ ان لڑکیوں نے ڈاکٹر چترن کی قیادت میں ایک خوبصورت کلاسیکل رقص کا مظاہرہ کیا۔ اس رقص میں ہندو دھرم کے اوتار کرشن جی کی گوپیوں (نوجوان لڑکیوں) سے چھیڑ چھاڑ کی تمثیل دکھائی گئی تھی اور کرشن لیلا (کرشن جی کے کھیل تماشے) میں پنگھٹ پر لڑکیوں کے مٹکے پھوڑنے اور مکھن چرانے جیسی شرارتوں کو رقص کے دلچسپ زاویوں سے اجاگر کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چپقلش کا خوب شور تھا، سرکار کی نوکری کرتے 14برس بیت گئے تھے، ابھی پہلی پروموشن کا انتظار تھا، تکلیف دہ انتظار اور یہ ختم ہوتے نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔
ڈاکٹر کاجل مولے کا مظاہرہ
ڈاکٹر چترن کے اس کلاسیکل دھرمی رقص کے بعد ڈاکٹر کاجل مولے کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر کاجل اور ان کی شاگرد نوجوان لڑکیوں نے علامہ اقبال کی مشہور نظم…سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا…پر کلاسیکل رقص کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹر کاجل نے اس شہرہ آفاق نظم کے مختلف مصرعوں پر رقص کے ایسے خوبصورت انداز اپنائے اور ایسے بلیغ اشاروں، کنایوں کا مظاہرہ کیا کہ ذوق سلیم رکھنے والے سامعین کے دل موہ لیے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 3 سیاح جاں بحق
ڈاکٹر چترن کا دوبارہ رقص
ڈاکٹر کاجل نے 2 رقص پیش کئے اور مجمع لوٹ لیا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر چترن کو دعوت دی گئی۔ اس مرتبہ وہ سٹیج پر تنہا نمودار ہوئے اور انہوں نے مورکا روپ دھار رکھا تھا۔ ڈاکٹر چترن نے موسیقی کے ردھم سے اپنے رقص کو ہم آہنگ کیا اور تقریباً پندرہ منٹ تک انتہائی خوبصورت انداز میں رقص طاؤس کا مظاہرہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کو ایک قیدی کی نہیں، پورے صوبے کی عوام کا تحفظ کرنا چاہیے، امیر مقام
ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کی یاد
ڈاکٹر چترن کا رقص طاؤس دیکھ کر ہمیں لاہور کے ڈاکٹر فقیر حسین ساگا یاد آ گئے۔ 1960-70 ء کی دہائیوں میں ان کا رقص ایکسپرٹ کے طور پر بڑا نام تھا حالانکہ وہ ڈاکٹر حیوانات تھے۔ مرحوم ناچ کے ڈاکٹر نہیں تھے لیکن کلاسیکل رقص میں ایسی دسترس رکھتے تھے کہ ایک عالم ان کے رقص کا گرویدہ تھا۔ ڈاکٹر چترن نے رقصِ طاؤس ختم کیا تو انہوں نے یہ اعلان کر کے ہم سب کو حیرت زدہ کر دیا کہ انہوں نے رقص طاؤس لاہور کے ڈاکٹر فقیر حسین ساگا سے سیکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شہزاد رائے نے پرانا گانا نئے انداز میں آج کی ’آنٹیوں‘ کے نام کردیا
خراج تحسین
چنانچہ تمام ہال نے ان کی درخواست پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کر کے ہمارے دوست، پاکستان کے فخر ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ڈاکٹر فقیر حسین ساگا ہمارے ڈاکٹر ظفر علی راجا کے لاہور وٹینری کالج / حال یونیورسٹی کے کلاس فیلو تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر ملتان سلطانز کے پیسے بڑھائے تو میں۔۔’ علی ترین نے پی سی بی کو واضح پیغام پہنچا دیا
دو شعر کی یادداشت
سرفراز سید سے بھی ان کے ذاتی مراسم تھے اور 1966ء میں جب راقم سیکرٹری جنرل ویسٹ پاکستان یوتھ موومنٹ کے عہدہ پر خدمات انجام دے رہا تھا تو ہمارے یوتھ سنٹر فضل بلڈنگ کوپر روڈ پر ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کا رقص طاؤس کا پروگرام ہوا تھا۔ چنانچہ ہمارے دوستوں ظفر علی راجا اور سرفراز سید نے مائیک ہاتھ میں لیکر ڈاکٹر فقیر حسین ساگا سے اپنے تعلقات کے ضمن میں حاضرین کو آگاہ کیا۔ ظفر علی راجا نے اس ضمن میں دو شعر سامعین کی نظر کئے جو کچھ اس طرح تھے:
ہو گئیں ہیں محبتیں تازہ
رابطہ پیار کا بحال کیا
اہل لاہور داد دیتے ہیں
کانپور شہر نے کمال کیا
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








