ایئر انڈیا کا مسافر طیارہ ممکنہ طور پر جان بوجھ کر گرایا گیا: دی ٹیلی گراف
حادثے کی تفصیلات
لندن (ویب ڈیسک) امریکی تحقیقاتی اداروں اور سابق سی آئی اے اہلکاروں نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت نے ایئر انڈیا کے احمد آباد طیارہ حادثے کی تحقیقات میں تعاون نہیں کیا اور متعدد اہم شواہد تک رسائی دینے سے انکار کر دیا۔ 12 جون 2025 کے اس حادثے میں 260 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ سے کوئی بھی جج استعفیٰ دینے کو تیار نہیں، میاں داؤد ایڈووکیٹ
تحقیقات کی رپورٹ
امریکی صحافی اور سابق سی آئی اے اہلکار سارہ ایڈمز کے مطابق امریکی تفتیشی ٹیم کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حادثہ پائلٹ کی ممکنہ لاپرواہی کے باعث پیش آیا، تاہم بھارتی حکام اب بھی بلیک باکس ڈیٹا تک مکمل رسائی دینے سے گریزاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جہاز گرنے پر چینیوں نے بھارت کا مذاق اُڑانا بند نہ کیا، ایک اور ویڈیو آ گئی، دیکھ کر بھارتیوں کو غصہ آجائے
بلیک باکس ڈیٹا کی اہمیت
ان کا کہنا ہے کہ اگر حادثے کی وجہ پائلٹ کی غلطی تھی، تو بلیک باکس ڈیٹا چھپانا کسی صورت بھی خودمختاری نہیں بلکہ مبینہ طور پر سیکیورٹی کے خدشات کو جنم دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خود کو سینٹر نیاز احمد ظاہر کرکے انکے دوست سے رقم ہتھیانے والا نوسرباز گرفتار
انسانی مداخلت کے امکانات
امریکی جریدے دی ٹیلی گراف نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی ایرو اسپیس ماہرین کے مطابق طیارے کی تباہی میں انسانی مداخلت کا امکان موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی وزیر دفاع نے کبھی سندھو کا پانی نہیں پیا اس لیے دماغ خراب ہے، وزیراعلیٰ سندھ
تصاویر پر پابندی
رپورٹ کے مطابق بلیک باکس ڈیٹا میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ کاک پٹ میں موجود کسی فرد نے انجن کا فیول سپلائی سسٹم خود بند کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وائلڈ لائف اور فاریسٹ فورس بھی سیلاب زدگان کی مدد کیلئے پہنچ گئی، شرقپور میں متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا
شواہد کی عدم دستیابی
رپورٹ مزید کہتی ہے کہ امریکی تفتیشی ٹیم کو حادثے کے ملبے کی تصاویر لینے سے روکا گیا اور کچھ شواہد ان کے پہنچنے سے پہلے ہی غائب کیے گئے۔ علاوه ازیں بھارتی حکام نے ماہرین کو کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا کے مکمل تجزیے تک رسائی بھی نہیں دی۔
حادثے کا ممکنہ مقصد
دی ٹیلی گراف اور وال اسٹریٹ جرنل دونوں نے اپنی رپورٹس میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ حادثہ ممکنہ طور پر دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔








