ابھی ریسٹ کرو، سمجھو تمہارا ایک اور ہنی مون پیریڈ ہے یہ، اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ صاحب کی الیکشن مہم جاندار تھی، اب الیکشن نتائج کا انتظار تھا۔
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 369
مجھے یاد ہے کہ جب ٹیلی وژن پر صاحب کے وزیر بلدیات کے اضافی چارج کی خبر نشر ہوئی تو مجھے ڈی جی لوکل گورنمنٹ جاوید محمود بھٹی (یہ زندہ دل اور باغ و بہار انسان تھے۔ چہرے پر بڑی مونچھیں اور مسکراہٹ، دھیما مزاج، خوش دلی، ان کی خصوصیات تھیں۔ ان کے ساتھ پیار اور محبت کا تعلق آج بھی ویسا ہی ہے) نے مجھے فون پر اطلاع دی۔ “شہزادے! تیرے پرانے باس کو وزارت بلدیات کا چارج بھی مل گیا ہے۔” یہ سنتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکلا؛ “سر! وزیر بلدیات تو پھر میں ہی ہوا نا۔” اتنے میں صاحب کا فون آ گیا۔ کہنے لگے؛ “کس سے بات ہو رہی تھی؟” میں نے؛ “انہیں مبارک دیتے کہا؛ “سر! ڈی جی لوکل گورنمنٹ سے۔ میں انہیں کہہ رہا تھا؛ سر! وزیر بلدیات تو میں ہی ہوا۔” صاحب بولے؛ “شہزاد صاحب! کسی کو شک بھی نہیں ہو نا چاہیے۔” اگلے روز دفتر آنے کا کہا۔ یہ ان کی محبت، اپنائیت اور بھروسہ تھا۔ سٹاف افسر ی کے دوسرے دور کی کہانی اگلے حصے میں بیان کروں گا۔
یہ بھی پڑھیں: ای آئی ٹیکنالوجی سے 3 کیریئر متاثر ہونے کا امکان نہیں: بل گیٹس کی پیشگوئی
بیک ٹو ہیڈ کواٹرز
میں اخلاق احمد تارڑ صاحب کے پاس اپنی پوسٹنگ کے لئے گیا۔ کہنے لگے؛ “شہزاد میاں! تم نے پچھلے 5 سال بہت کام کیا ہے اب ریسٹ کرو۔ الیکشن ختم ہو جائیں تو حکومت (ق) لیگ کی ہی آنی ہے پھر دیکھیں گے تمھیں کہاں پوسٹ کرنا ہے۔ سمجھو تمھارا ایک اور ہنی مون پیریڈ ہے یہ۔” اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ میں یہ دو آنکھیں کبھی صاحب کے پاس پنڈی چلا جاتا لیکن زیادہ تر گھر پر ہی رہتا۔ صاحب کی الیکشن مہم جاندار تھی۔ اب الیکشن نتائج کا انتظار تھا۔
ڈیل سے ہیل
جنرل پرویز مشرف کو خود کو سیاسی اعتبار سے زندہ رکھنے کے لئے مضبوط سیاسی سہارے کی ضرورت تھی۔ اسی ضرورت کے پیش نظر اور ان کی خفیہ ملاقاتوں کا نتیجہ بینظیر بھٹو سے ڈیل کی صورت نکلا۔ (ق) لیگ کی قیادت کے لئے یہ ڈیل پہلا جھٹکا تھی۔ شاید وہ یہ جھٹکا برداشت کر جاتی لیکن ابھی بینظیر نے بھی انہیں اور جھٹکا دینا تھا جس کے لئے (ق) لیگ نے سوچا بھی نہ تھا۔ سیاست کا کھیل بہت بے رحم ہے۔ اتنا بے رحم کہ اِس کا دل بھی نہیں ہوتا۔ اکتوبر 2007ء میں خود ساختہ جلا وطنی کے بعد بی بی کراچی پہنچیں تو لوگوں کا ایک سمندر اپنی محبوب لیڈر کے خیر مقدم کو امڈ آ یا تھا۔ وہ میدان سیاست کی آزمودہ اور شاندار کھلاڑی تھیں۔ انہوں نے سوچا کہ اگر نواز شریف بھی پاکستان آ جائے تو اس کی آمد کا سیاسی فائدہ انہیں پہنچے گا۔ لہٰذا انہوں نے اور سعودی حکومت (جو ایام جلا وطنی میں نواز شریف کے میزبان تھے) نے جنرل مشرف کو مجبور کیا کہ وہ نواز شریف کو بھی وطن واپس آنے کی اجازت دیں جو بالآخر انہیں دینی پڑی تھی۔ قدرت کی اپنی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ بینظیر راولپنڈی حادثہ میں ماری گئیں۔ پنجاب میں (ق) لیگ تتر بتر ہو گئی کہ اس کے آشیانے کے فصلی بیٹرے اڑ کر اب کوئی اور فصل چگنے کو تیار تھے۔ اس ملک کی سیاست بھی “نظریۂ ضرورت” کی ہے بالکل عدالتی فیصلوں کے نظریۂ ضرورت کی طرح۔
ان حالات میں (ق) لیگ کو الیکشن 2007ء میں شکست ہو گئی۔ میرا بھی ہنی مون پیریڈ اختتام کو پہنچا اور میں اپنی نئی پوسٹنگ کے لئے سیکرٹری بلدیات پنجاب اخلاق تارڑ صاحب کے دفتر پہنچ گیا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب “بک ہوم” نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








