پاکستان میں تفتان سے گاڑی ہندوستان کے سرحدی قصبے اٹاری تک آتی تھی وہاں سے اْسکو آگے بیناپول تک انڈین ریلوے کا انجن لیکر جاتا تھا
مصنف
محمد سعید جاوید
یہ بھی پڑھیں: ندا یاسر کے گھر غیرملکی ملازمہ کی چوری کی چونکادینے والی واردات
قسط
329
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کی ممکنہ منظوری کیلئے سینیٹ کا اجلاس
دریاؤں پر ریلوے پلوں کی تکمیل کا سال
- جہلم: 1876
- چناب: 1876
- راوی: 1876
- ستلج: 1878
- اٹک پل دریائے سندھ: 1883
- لینس ڈاؤن پل دریائے سندھ: 1889
- کوٹری پل: 1900
- ایوب پل: 1962
یہ بھی پڑھیں: سولر کے ذریعے مسلسل پانی نکالنے کی وجہ سے پانی کا گراف نیچے ہوا، وزیر آبپاشی بلوچستان
کچھ اور دلچسپ معلومات
1950ء اور 1955ء کے درمیان مغربی پاکستان کے آخری قصبے تفتان سے مشرقی پاکستان کے شہر بیناپول تک ایک ریل گاڑی مشرق۔مغرب (East-West) ایکسپریس کے نام سے چلا کرتی تھی۔ اس روٹ کا کل فاصلہ تقریباً 3000 کلومیٹر تھا، لیکن اس میں سے 1986 کلومیٹر کا راستہ ہندوستان کے علاقے میں سے گزرتا تھا۔ اس کے لئے پاکستان کے محکمہ ریلوے کو ہندوستان کے ریلوے نظام کا تعاون حاصل رہتا تھا۔ تفتان سے گاڑی ہندوستان کے سرحدی قصبے اٹاری تک آتی تھی، وہاں سے اسے آگے بیناپول تک انڈین ریلوے کا انجن لے جاتا تھا۔ پانچ سال چلنے کے بعد 1955ء میں یہ سلسلہ معطل ہو گیا۔
بلوچستان کے کوئٹہ۔ چمن ریلوے سیکشن پر اپنے وقتوں میں ایشیا کی سب سے طویل ریلوے سرنگ، کھوجک ٹنل، 1891ء میں مکمل ہوئی تھی۔ اس کی لمبائی 3.9 کلومیٹر ہے۔
پاکستانی علاقے میں کم از کم 30 ایسی برانچ لائنیں ہیں جو اب بند ہو گئی ہیں، ان میں سے اکثر پاکستان بننے کے بعد ہی بند ہوئی ہیں۔
پشاور سے کوئٹہ براستہ روہڑی جانے والی تمام گاڑیاں پاکستان کے چاروں صوبوں یعنی خیبر پختونخواہ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے گزرتی ہیں۔
گاڑی کے آخری ڈبے کے پیچھے کراس × کا نشان اس لیے لگایا جاتا ہے کہ اسے دیکھ کر ریلوے کا متعلقہ عملہ اس بات کی تصدیق کر سکے کہ گاڑی اپنی مکمل حالت میں گزر رہی ہے اور کوئی ڈبہ پیچھے نہیں رہ گیا۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








