انسانی فطرت میں حسد ہمیشہ سے ہے، سینئر افسران کو تکلیف پہنچی تھی، پھر مایوسی لوٹ آئی، کولیگزبے تکلفی سے مسائل میرے ساتھ ڈسکس کر لیتے تھے
مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 371
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں بارش کی پیشگوئی
انسانی فطرت اور حسد
انسانی فطرت میں حسد ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس عہدے پر تعیناتی سے کچھ سینئر افسران کو تکلیف پہنچی تھی۔ حاسدوں میں افتخار طور، اُس وقت کے ڈائریکٹر (سی ڈی) بھی شامل تھے جو اس پوسٹ پر نظر لگائے ہوئے تھے۔ جب ایسا نہ ہوا تو وہ میرے خلاف سیکرٹری بلدیات خواجہ نعیم کے کان بھرنے لگے کہ "یہ شخص تو راجہ بشارت کا خاص آدمی ہے، اسے اس عہدے پر نہیں ہونا چاہیے۔" سیکرٹری بلدیات نے ڈی جی طاہر حسین کو بلایا اور انہیں مجھے اس عہدے سے ہٹانے کو کہا۔ طاہر صاحب نے سیکرٹری بلدیات کو یقین دلایا کہ مذکورہ افسر upright ہے اور اُسے بطور سٹاف افسر ٹو منسٹر محکمہ نے ہی پوسٹ کیا تھا نہ کہ یہ منسٹر کی چوائس تھی۔ ان کی تسلی ہوگئی مگر یہ بات افتخار طور کے دل میں گھاؤ کر گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ چیمپئن شپ لیجنڈز لیگ، پاکستان چیمپنز میں شاہد آفریدی کی موجودگی میں ہم میچ نہیں کھیلیں گے، بھارتی کھلاڑی
کامیابیوں کا سفر
میرے ڈائریکٹر ایڈمن کی اہم پوسٹ پر تعیناتی کا سب سے بڑا فائدہ میرے کولیگز کو ہوا کہ وہ بے تکلفی سے اپنے مسائل میرے ساتھ ڈسکس کر لیتے تھے۔ ان کی تسلی ہو جاتی اور میں ان کا جائز مسئلہ حل کرنے کی بھرپور کوشش بھی کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی کوچ گوتم گمبھیر اور ویرات کوہلی کے درمیان اختلافات مزید بڑھ گئے: بھارتی بیٹر کا اہم ٹورنامنٹ کھیلنے سے انکار
حکام بالا کی رائے
میری اس تعیناتی اور کام سے لگن نے حکام بالا کو یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ نئے افسران کی لوٹ میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ اس جیسی اہم پوسٹ پر نہ صرف کام کرنے کی اہلیت رکھتے تھے بلکہ بہت سوں سے بہتر بھی تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیم کی طرح کام کررہے ہیں، عوام میں پذیرائی مل رہی ہے: وزیر اعلیٰ مریم نواز کی لندن میں میڈیا سے گفتگو
سروس رولز پر توجہ
یہ موقع تھا کہ اپنے سروس رولز کی طرف توجہ دی جائے کہ ڈی جی بھی ہمارے ہمدرد اور حالات کو بہتر سمجھنے والے افسر تھے۔ میری اس پوسٹ پر کامیابی میرے دوستوں کی کامیابی تھی۔ میری خواہش اور طاہر صاحب کی کوشش سے 17 گریڈ تک کے افسران کی پوسٹنگ کا اختیار ڈی جی آفس کو دوبارہ مل گیا تھا، جو کئی سال پہلے سیکرٹری بلدیات نے واپس لے لیا تھا۔ سروس رولز کے حوالے سے بھی میرے گروپ کے نقطہ نظر سے وہ متفق تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر شہبازگل کا موقف: بیرسٹر سیف کی بھارتی وزیر خارجہ کو احتجاج میں شرکت کی دعوت پر رد عمل
ترقی کے مسائل
ہماری پروموشن ایک دیرینہ مسئلہ اور خواب تھا۔ چوبیس سال کی نوکری کے بعد بھی میرا بیج پہلی ترقی کا منتظر تھا جبکہ ہم سے سینئر سترہویں گریڈ سے ہی ریٹائر ہو گئے تھے۔ ہم عرصۂ دراز سے سروس رولز کو نئے سرے سے مرتب کرنے کے لیے کوشاں تھے لیکن اب تک ہماری ساری کوششیں ناکام رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ الیکشن: 2 ایم پی ایز کا مشال یوسفزئی کے تجویز اور تائید کنندہ بننے سے انکار
پیارے دوست کا تبادلہ
کام زور و شور سے جاری تھا کہ طاہر صاحب کا تبادلہ بطور سپشل سیکرٹری بلدیات ہوا تو ایک بار پھر مایوسی لوٹ آئی۔ ان کی جگہ ناصر جامی ڈائریکٹر جنرل بلدیات پوسٹ ہوئے۔ ناصر جامی رشتہ میں میرا برادر نسبتی تھے کہ میری بیگم کے کزن اور ان کی والدہ "راحت آنٹی اور میری ساس فرحت آنٹی" آپس میں فرسٹ کزن تھیں۔ ان کے والد مصباح الدین جامی آئی جی پنجاب رہے تھے اور میری ان سے اچھی یاد اللہ تھی۔ ناصر جامی خشک مزاج اور گفتگو کے سخت تھے کہ ان میں پولیس افسران والی عادات بھی تھیں۔ (بعد میں وفاقی سیکرٹری بھی رہے) ہیڈ کوارٹرز پر جب دوستوں کو میرے اور ان کے تعلق کا علم ہوا تو میرا رعب کچھ اور زیادہ ہو گیا تھا۔ میرے اور ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








