زمین زرخیز ہونے کا وقت تھا، اضافی چارج سے جان چھوٹ گئی،محکمے میں وقت پر ترقی کا رواج نہ تھا، افسران صرف اپنی ذات کی حد تک ہی سوچتے تھے
مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 372
یہ بھی پڑھیں: وزیر تعلیم کا مختلف امتحانی سنٹرز کا دورہ، بوٹی مافیا کا ایک اور نیٹ ورک پکڑ لیا
خشک مزاج کے ساتھ آغاز
ناصر جامی کی آمد کے چند ہفتوں بعد، ان کے دوست تقی قریشی بطور ڈائریکٹر ایڈمن تعینات ہوئے۔ تقی بھی ناصر کی طرح خشک مزاج، کم گو مگر باصلاحیت افسر تھے۔ ان کا تعلق ملتان کے پیر اور بڑے زمینداروں سے تھا، جبکہ ان کی بیگم سارہ اسلم سی ایس پی اور بعد میں ہماری سپیشل سیکرٹری بھی رہ چکی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: وائی فائی سے 100 گنا تیز نئی وائرلیس انٹرنیٹ ٹیکنالوجی لائی فائی کیا ہے؟
کارکردگی کے معیار
تقی قریشی آنے کے بعد افسران کی ترقی کی جانب توجہ دی۔ ہمارے محکمے میں ترقی کے نظام کا فقدان تھا، افسران صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فیلڈ میں مایوسی اور بددلی کا دور دورہ تھا۔ افسران اپنی سالانہ اے سی آر بھی نہیں لکھواتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: Peshawar High Court Grants Transit Bail to Ali Amin Gandapur in Two Cases
پہلی بوند کا ٹپکا کرنا
ان مایوس کن حالات میں، میں نے پانی کی پہلی بوند ٹپکانے کی کوشش کی۔ پہلے مرحلے میں اسسٹنٹ انجینئرز کی گریڈ 17 سے گریڈ 18 میں ترقی کا منصوبہ بنایا گیا۔ کئی ہفتے افسران کی اے سی آرز جمع کرنے میں گزر گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (ترمیمی) آرڈیننس 2025 تیار
پروموشن کی کارروائی
پروموشن کمیٹی کی پہلی میٹنگ کے دوران، خواجہ محمد نعیم، سیکرٹری بلدیات، نے ڈپٹی سیکرٹری عاشق حسین کی منفی سوچ کا سامنا کیا جو اعتراض کرتے رہے۔ سیکرٹری بلدیات نے ان سے پوچھا، "پروموٹ کرنے کی اتھارٹی کون ہے؟" جس پر انہوں نے جواب دیا، "سر! آپ۔" سیکرٹری نے کہا، "میں نے محکمہ بھی چلانا ہے، گریڈ 18 کے انجینئرز کے بغیر کام کا ہرج ہو رہا ہے۔" اس کے بعد انہوں نے ایک افسر کی ترقی کی اجازت دی۔
تقریبی حالات
پروموٹ ہونا چاہیے تھا جو رہ گیا، اور جس کا کوئی امکان نہ تھا، وہ ترقی پا گیا۔ پانچ منٹ میں پروموشن بورڈ کا اجلاس ختم ہوا۔
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








