چند ذمہ داریوں نے جلد ہی منظور نظر بنا ڈالا، اعلیٰ افسران کام کا بوجھ مجھ پر ڈال کر سارا دن سیگریٹ پیتے گپ شپ لگاتے، یہی پرکھنے کا وقت تھا
مصنف
شہزاد احمد حمید
یہ بھی پڑھیں: بھارت سے برابری کی بنیاد پر کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں: وزیراعظم
قسط
373
یہ بھی پڑھیں: موجودہ صورتحال میں مسافر ایئرپورٹ آنے سے پہلے کال سینٹر پر رجوع کریں: ترجمان پی آئی اے
وقت سے پہلے منٹس آف میٹنگ
منٹس آف میٹنگ وقت سے پہلے انہیں دے دئیے گئے۔ سچی بات تھی مجھے عامر کے پروموٹ نہ ہونے کا بڑا رنج تھا۔ وہ محکمے کے انجینئرز میں سے قابل، سمجھ دار اور شاندار افسر تھا۔ پھر ریٹائیرمنٹ تک وہ پروموٹ نہ ہو سکا۔ بہت سال بعد عامر اور میں نے بہاول پور اکٹھے نوکری کی جہاں وہ ایکسین لوکل گورنمنٹ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: منموہن سنگھ کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور میں جسٹس سچر کی رپورٹ میں بھارتی مسلمانوں سے امتیازی اور غیر منصفانہ سلوک کی واضح نشاندہی کی گئی
پروموشنز کا دور
وہ محکمے میں پروموشنز کا دور تھا۔ ہم اگلی پرموشن کے لئے ورکنگ پیپرز بنا رہے تھے کہ میرے سپرنٹنڈنٹ سیلم شاد نے مجھ سے اپنی ایک انکوائری چھپائی اور اسی غلط فہمی کی بنیاد پر میری ایڈمن ونگ سے ٹرانسفر سی ڈی ونگ میں کر دی گئی۔ سیلم شاد کی بات پر من و عن یقین کرنا میری حماقت تھی۔ ایڈمن ونگ سے تبادلے کا وقتی طور پر مجھے رنج تھا لیکن آگے چل کر سی ڈی ونگ مجھے اپنے مزاج کے زیادہ قریب لگا اور یہاں نبھائی چند ذمہ داریوں نے جلد ہی مجھے اعلیٰ افسران کا منظور نظر بنا ڈالا۔
یہ بھی پڑھیں: فضائی آلودگی میں عالمی سطح پر لاہور سرفہرست
اسسٹنٹ ڈائریکٹر کمیونٹی ڈیویلپمنٹ
محکمہ بلدیات کے دو اہم components ایک لوکل گورنمنٹ جس میں تمام بلدیاتی حکومتوں، گورنس، تربیت، انتظام و انصرام، قوانین اور رولز کی تشکیل وغیرہ شامل تھے، ہے جبکہ دوسرا اور انتہائی اہمیت کا حامل کمیونٹی ڈیویلپمنٹ ہے۔ اس اصطلاح سے مراد انفرادی یا اجتماعی طور پر لوگوں کے گروپ کو با اختیار اور با شعور کرنا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق اپنی کمیونٹی میں تبدیلی لاسکیں۔ یہ طاقت ور اور متحرک کمیونٹی کو جنم دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں ریلوے ٹریک پر دھماکا، جعفر ایکسپریس کی 6 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں
کمیونٹی کی ترقی
کمیونٹی کی ترقی، شعور، دوسرے الفاظ میں انہیں ان کی ذمہ داریوں، فرائض اور حقوق کی جانکاری دیتا تھا۔ افسوس اس شعبہ کی طرف محکمے کی توجہ کم ہی رہی تھی۔ ہمارا سارا فوکس پہلے کمپونٹ کی طرف ہی رہا جبکہ دوسرے کمپونٹ ہم نے ڈیویلپمنٹ پاٹنرز کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا تھا جن میں یونیسیف نے زیادہ مگر محدود کام کیا۔ بہرحال اس ونگ کو جوائن کرنے پر میں نے سوچا یہاں بھی کچھ حصہ ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق ریئلٹی سٹار ڈائمنڈ ٹینکرڈ کی وال مارٹ میں لڑکی پر حملے اور چوری کے الزام میں گرفتاری و رہائی
افسوسناک حقائق
دکھ کی بات یہ بھی تھی کہ افتخار طور کی ریٹائرمنٹ کے بعد دوسرے محکموں سے آئے افسران ہی ڈائریکٹر (سی ڈی) کی پوسٹ پر براجمان رہے، وقت گزارا، مال کمایا اور چلے گئے۔ انہیں سی ڈی ونگ سے اتنی ہی شدھ بدھ ہوتی جتنی کسی غریب آدمی کو چائنیز کھانے سے۔ جب میں نے یہ ونگ جوائن کیا تو ڈاکٹر شعیب ڈائریکٹر تھے (بنیادی طور پر وہ مجسٹریٹ تھے۔) انہیں شاید سی ڈی کے معنی بھی پتہ نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کتنے امریکی اراکین کانگریس پاکستان کا دورہ کریں گے۔۔۔؟ذرائع نے تعداد بتا دی
پریزنٹیشن میٹنگ
کام کا سارا بوجھ مجھ پر ڈال کر وہ سارا دن سیگریٹ پیتے یا دوستوں سے گپ شپ لگاتے تھے۔ میں تنگ تو تھا لیکن اُس وقت نے مجھے اس ونگ کو سمجھنے اور پرکھنے کا بہت موقع دیا۔ پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ میں میٹنگ تھی جس میں مختلف محکموں کے ڈیویلپمنٹ پاٹنرز کے ساتھ جاری پراجیکٹ پر بریفنگ تھی۔ ڈاکٹر شعیب نے حسب عادت مجھے تیاری کا حکم دیا مگر میں بھی اس بار انہیں شرمندہ کرنے کا پروگرام بنا چکا تھا۔ ساری تیاری کر کے انہیں بھی پریزنٹیشن کی ایک کاپی دی۔ میٹنگ والے دن یہ بھی پہنچ گئے اور کہنے لگے پریزنٹیشن تم نے دینی ہے۔ میں نے لکھ کر بتایا؛ "سر! میری تو آواز رات سے بند ہے۔ دوائی کے باوجود رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا۔" ان کا چہرہ لال ہو گیا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








