ہندوستان میں مختلف دالیں اور سبزیاں کھا کر پاکستانی کھانوں کی یاد ستا رہی تھی، دستر خوان نعمتوں سے بھرپور تھا، دلوں کی مراد بر آئی۔
خس کی افادیت
مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:242
انہوں نے بتایا کہ خس کی جڑوں میں قدرت نے ایسی خاصیت رکھی ہے کہ یہ ہر طرح کی کیمیائی اور تیزابی آلودگی کا زہر بھی 95 سے 97 فیصد تک جذب کر لیتی ہے اور اس طرح دریائی پانی کو زراعت اور انسانی استعمال کے قابل بنا دیتی ہے۔ مسز رفعت مسعود نے بتایا کہ اس خاتون کو خس کی افادیت پر ڈیمانسٹریشن کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ حسنِ اتفاق ہے کہ آج آپ لوگ بھی موجود تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ آبی فلٹریشن کے اس عمل کی تمام تفاصیل اور عملی آگاہی حاصل کر کے حکومتِ پاکستان کو اس طرف متوجہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا 27 ستمبر کا جلسہ کامیاب نہیں ہونا، اس کو کامیاب کرنے کے لئے وادی تیراہ واقعہ پر سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، حسن ایوب کا تجزیہ
کھانے کی دعوت
خس کی خاصیت اور افادیت پر لیکچر کے بعد مسز رفعت مسعود نے سب لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔ کھانا گرما گرم اور لذیذ تھا۔ سیخ کباب، مرغ مسلم، مچھلی، مٹن کری، کڑائی گوشت، دال، سبزی، پلاؤ، روغنی نان… غرض میز پر سجا دستر خوان انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھرپور تھا۔ بھارت کے دورہ کے آغاز سے اب تک بھانت بھانت کی دالیں اور سبزیاں کھا کھا کر ویسے بھی ہمیں پاکستانی کھانوں کی یاد تڑپا رہی تھی۔ یہ کھانے دیکھ کر دلوں کی مراد بر آئی۔ کھانے کے بعد چائے آئس کریم کا دور چلا۔
یہ بھی پڑھیں: صارم برنی کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو 4 جولائی تک جواب داخل کرانے کی مہلت
سری لنکن جج جسٹس وگنیشور سے ملاقات
پاکستانی سفارت خانے کی دعوت کے بعد ہمارے دورے کی یہ پہلی شام تھی جب ہم بالکل فارغ تھے۔ سوال یہ تھا کہ اس ’’فارغ البالی“ کو کسی مصروفیت میں صرف کیا جائے یا فارغ البالی ہی رہنے دیا جائے۔ جیوری کا اجلاس بلایا گیا تو حسبِ معمول متضاد آراء سامنے آئیں۔ سجاد بٹ نے چاند نی چوک میں مٹھائیوں کی مشہور دکان ہلدی رام میں جا کر منہ میٹھا کرنے کو ترجیح دی۔ خواتین میں سے اْمّ کلثوم اور مبرّا اعجاز نے زنانہ کپڑے کی خریداری اور سیر سپاٹے کو اہم جانا۔ ارشاد چوہدری اور سرفراز سید کا خیال تھا کہ چونکہ اگلے روز ہمیں آگرہ تک سفر کرنا ہے اس لیے مکمل آرام کیا جائے۔ نور جہاں جعفر کو گاندھی فاؤنڈیشن کی سہولیات، توہین آمیز محسوس ہوئیں لہٰذا انہوں نے گاندھی فاؤنڈیشن کی بجائے کسی اچھے ہوٹل میں قیام کا فیصلہ کیا اور ہم سے جدا ہو گئیں۔ راقم اور جہانگیر جھوجھہ ہم مشاورت تھے کہ سری لنکا کے جسٹس وگنیشور تلکا رتنے پنجاب بھون میں ٹھہرے ہوئے ہیں، ان سے تفصیلی ملاقات کا وعدہ بھی تھا لہٰذا ان سے ملاقات کر کے اس بے مقصد شام کو بامقصد بنایا جا سکتا ہے۔ ظفر علی راجا نے بھی ہمارے حق میں ووٹ دیا لہٰذا راقم نے جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے سب لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق آج کی شام گزارنے کی اجازت دی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں رومانوی شاعری پر پابندی لگا دی گئی، خلاف ورزی پر سخت سزا کا اعلان
جسٹس وگنیشور کی بات چیت
ظفر علی راجا، جہانگیر جھوجھہ اور راقم پنجاب بھون پہنچے۔ ہماری درخواست پر استقبالیہ خاتون نے جسٹس صاحب کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور ہمیں لفٹ کے ذریعے ان کے کمرے تک جانے کی رہنمائی کی۔ جج صاحب نے کمرے سے باہر کوریڈور میں ہمارا استقبال کیا۔ کمرے میں پہنچ کر باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کا انگریزی میں آغاز ہوا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے گفتگو کا آغاز ہوا جو کشمیر سے ہوتا ہوا بھارت اور پھر سری لنکا تک جا پہنچا۔ سری لنکا میں دہشت گردی اور تخریبی کاروائیوں کی ذمہ داری زیادہ تر تامل قوم پر عائد کی جاتی ہے۔ جسٹس صاحب نے یہ بتا کر ہم سب کو چونکا دیا کہ وہ خود تامل قوم کے فرد ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تامل قوم گزشتہ 3 ہزار سال سے سری لنکا میں آباد ہے۔ اس لحاظ سے تامل لوگوں کو (SON OF SOIL) سری لنکن سپوت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تقریباً اڑھائی ہزار برس قبل مہاتما بدھ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر تامل قوم کی اکثریت نے بدھ مذہب اختیار کر لیا۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








