آج کا زمان پارک کتنا مختلف ہے؟
زمان پارک کی صورتحال
کل زمان پارک جانا ہوا تو عمران خان کے گھر کے باہر حالات دیکھ کر ایک دم رک گیا۔ دو سال پرانے وہ تمام مناظر ذہن میں گھومنے لگے کہ جب یہاں ہر طرف رش ہوتا تھا۔ زمان پارک کی ہر گلی حتی کہ مین کینال روڈ پر لوگوں کے ڈیرے تھے۔ خیمہ بستی آباد تھی۔ ٹکٹ لینے والے قطاروں میں لگ کر عمران خان سے ملنے کا موقع پاتے تھے۔ پی ٹی آئی کے لوگ عمران خان تک رسائی پانے کے لیے اپنا سب کچھ لوٹانے سے دریغ نا کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چین اور پاکستان کا دفاعی اور سیکیورٹی تعاون کسی تیسرے فریق کے لئے نہیں ہے، چینی ترجمان
لوگوں کے جذبات
جذبات کا پورا سمندر بہہ رہا تھا۔ مرد،عورتیں، بچے سبھی اس میں غوطہ زن تھے۔ بڑے بڑے سرمایہ کار وہاں سڑکوں پر دریاں بچھائے نظر آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے 5 طیارے اور ایک ڈرون کو مار گرایا : وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ
تحریک انصاف کی تنظیم
کئی وزراء اور وڈیرے چوکیداروں کی فہرست میں موجود تھے۔ ہر علاقے کی تنظیم کی باقاعدہ ڈیوٹی لگتی تھی اور ہر خیمے میں اس کے مکینوں کی گنتی ہوتی تھی۔ اوپن کچن قائم تھے۔ ناشتے، کھانے اور رمضان میں سحری و افطاری کے انتظامات کیے جاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیز فائر کے تسلسل کا خیر مقدم کرتے ہیں،خواجہ سعد رفیق
عمران خان کی حفاظت
ابرارالحق صاجب عمران خان کے گھر کے باہر پہرے دار ہوا کرتے تھے اور اس کو عظیم عبادت قرار دیتے تھے۔ جذباتی طبقے نے عمران خان کو یہ باور کروا رکھا تھا کہ جان چھڑکنے والے اتنے لوگوں کی موجودگی میں کوئی آپ کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا۔ عمران خان کو گرفتار کرنے آنے والوں کے ساتھ سارا سارا دن مزاحمت کرنے والے نوجوان اپنے اس عمل کو کسی جہاد سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ یہاں موجود لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو ان کی لاشوں سے گزرنا پڑے گا۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ
گرفتاری کے نتائج
لوگوں کے یہ جذبات ان کی محبت کی عکاسی کرتے تھے لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اچھے خاصے سیاسی فہم و بصیرت والے پی ٹی آئی رہنماؤں نے بھی اس خیالی دنیا کو شاید حقیقت سمجھ لیا۔۔۔ عمران خان کو نا جانے کس غلط فہمی میں مبتلا کروایا اور اتنے بڑے پریشر گروپ کا سیاسی استعمال کرنے کی بجائے ریاست سے لڑوا کر وہ بھرم توڑ دیا۔ جب عمران خان کی اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی تو جذبات کے سمندر میں غوطہ زن تحریک انصاف کے کارکنان کو کوئی قابو کرنے والا نا رہا۔ ثانوی درجہ قیادت کے فقدان نے تحریک انصاف کی سیاسی طاقت کو ریاست کی عسکری طاقت کے آگے لا کھڑا کیا۔ جن کارکنان نے عمران خان ہی گرفتاری کو اپنی جانیں دے کر روکنے کا عزم کر رکھا تھا انہوں نے اس گرفتاری کو اپنی جوانی کی توہین سمجھ لیا۔ 9 مئی کے روز توڑ پھوڑ سے منع کرنے اور پرامن رہنے کا درس دینے پر عندلیب عباس، اعجاز الحق، ڈاکٹر یاسمین راشد اور میاں محمودالرشید کے ساتھ جذباتی کارکنان کو بدتمیزی کرتے ہوئے میں نے خود دیکھا۔
یہ بھی پڑھیں: آئین سپریم ہے: قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں ارکان کے درمیان دلچسپ مکالمہ
جذباتی بیانیہ اور اس کے نتائج
تحریک انصاف کے جس بیوقوف بیانیہ ساز نے عمران خان کی گرفتاری کو ریڈ لائن بنا کر کارکنان کی یہ ذہن سازی کردی تھی کہ اگر عمران خان گرفتار ہوئے تو حکومت ان کا قتل کردے گی دراصل وہی تحریک انصاف پر آئے کڑے وقت کا اصل ذمہ دار ہے۔ اس جذباتی بیانیے نے ایک مظبوط اور متحرک سیاسی جماعت کو ریاست سے ٹکرا دیا اور نتیجتا ریاست کے ہاتھوں جبر و تشدد سے فی الوقت اس تحریک کو پارہ پارہ کروادیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی والے پارلیمانی کمیٹی میں نہیں بیٹھ رہے تو پارلیمنٹ کے فلور پر بات کرلیں گے: چیئرمین سینیٹ
سیاسی شعور کا فقدان
سیاسی اور عسکری جدوجہد میں فرق رکھنا سیاسی شعور کی پہلی سیڑھی ہے۔ اگر کوئی اس میں تمیز نا رکھ پائے تو پھر اگلی منزل صرف تصادم رہ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے اس جذباتی بیانیہ ساز کو اب اکیلے بیٹھ کر یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اس کی لگائی آگ سے اب تک کتنی جانیں جا چکی ہیں۔ کتنے ہزار لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ خود عمران خان دو سال سے جیل میں ہیں۔ جس بیانیہ ساز نے عمران خان کی گرفتاری اس کو قتل کرنے کی سازش قرار دی تھی اس کو کوئی شرم آتی ہے کہ عمران خان تو دو سال سے جیل میں قید ہیں اور الحمداللہ زندہ و جاوید ہیں۔ اللہ تعالٰی انہیں لمبی زندگی عطا فرمائے۔
یہ بھی پڑھیں: اوپپو A3 مڈ رینج سمارٹ فون، پرفارمنس اور بہترین ڈیزائن کے ساتھ
زمان پارک کا حال
آج کے زمان پارک میں ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم ہے۔ خود عمران خان کے گھر کے باہر ٹین کی ایک دیوار لگا کر خاردار تاریں لگا رکھی ہیں۔ گھر کے اطراف میں سینکڑوں پولیس اہلکار تعینات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وہ بلا کا ملنسار، خوش اخلاق اور تابعدار انسان تھا، نہ اس کی گھٹی میں تھی ہی نہیں، کسی کے گھر کوئی غمی خوشی کی تقریب ہوتی تو میزبانی میں سب سے آگے ہوتا۔
امید اور ذمہ داری
عمران خان کے گھر کے گیٹ پر ایک قرآنی آیت لکھ رکھی ہے جس کا مفہوم ہے کہ "بیشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے"۔ بلاشبہ عمران خان کے لیے مستقبل میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی لیکن اس دو سالہ لڑائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا؟؟ میں تو اس جذباتی بیانیہ ساز کو اس کا قصور وار سمجھتا ہوں جس نے عمران خان کو ریڈ لائن بنا کر خان نہیں تو پاکستان نہیں اور خدانخواستہ خان کی گرفتاری کو اس کے موت کے خدشات کے ساتھ جوڑ دیا اور نتیجے میں پاکستان کے اندر سے بچی کھچی جمہوریت، سیاست اور شخصی آزادیوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف اور خود عمران خان کو نقصان پہنچایا۔
نوٹ
یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ‘[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔








