زندگی کے کٹھن وقت، سرکاری ٹیکے اور رمضان بازار کے گھپلے
مصنف کی شناسائی
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 377
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں 13سے زیادہ ججز نہیں ہونے چاہئیں، فواد چوہدری
تناؤ کی رفتار
میں اُس کے دفتر سے باہر نکل گیا۔ ڈی جی نے ڈاکٹر سے میٹھا بن کر سارے پیسے وصول کیے اور پھر اینٹی کرپشن میں ایف آئی آر بھی درج کرا دی۔ کئی ماہ تک وہ اینٹی کرپشن کے چکر لگاتی رہی تھی۔ اسدمانی کا کینہ ختم نہ ہوا تھا میرا وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ماسوائے میرے تبادلے کے۔ وہ بھی اس نے چھٹی والے دن بطور پراجیکٹ منیجر (ہیڈ کوارٹرز) راجن پور کر دیا۔ میری زندگی کا کڑا وقت میرا منتظر تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یونان کشتی حادثہ کے بعد ایف آئی اے کی کارروائیاں، مزید 2 ملزم کامونکی اور پسرور سے گرفتار
ٹی اے بل کا مسئلہ
مجھے راجن پور ایک ایسے صاحب کو جوائننگ دینی تھی جس کی پروموشن میرے ہاتھ سے ہوئی تھی۔ میرے لئے یہ بڑی شرمندگی تھی۔ سیلاب کا زمانہ تھا میں نے راجن پور نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اتفاق سے ان دنوں میری کمر میں تکلیف تھی میں پروفیسر ڈاکٹر اویس سید صاحب کے زیر علاج تھا۔ صاحب کی وجہ سے میری ان سے بہت اچھی سلام دعا تھی۔ اپنی عادت کے برعکس انہوں نے مجھے ایک ہفتہ ریسٹ کا میڈیکل اپنے نسخہ پر ہی لکھ دیا جو میں نے دفتر جمع کرا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: دل چاہتا ہے بڑی ہو کر سی ایم بنوں
ٹی اے بل کا حیرت انگیز نتیجہ
ہاں میں بتانا بھول گیا کہ راجن پور سے واپسی پر ڈی جی نے اپنا ٹی اے بل اپنے پی اے طارق ملک کے ہاتھ مجھے بھجوایا۔ یہ ایک رات قیام اور آنے جانے کے کرائے کا ہونا چاہیے تھا مگر یہ 3 رات اور آنے جانے کے لئے بذریعہ سرکاری کار لکھا تھا حالانکہ ڈی جی نے ڈائیو بس سے سفر کیا تھا۔ ایک رات کا ٹی اے 6 ہزار روپے تھا، جبکہ اگر کار میں سفر کریں تو 10 روپے فی کلو میٹر کے حساب سے ادائیگی ہوتی تھی اور اگر بس سے سفر کریں تو بس کا ٹکٹ ٹی اے بل کے ساتھ لف کرنا ہوتا تھا۔ پی اے نے مجھے 24 ہزار کا ٹی اے بل بنا کر دیا۔ میں نے کہا؛ "بنتا تو 10 ہزار ہے۔" کہنے لگا؛ "سر! آپ نے کون سا پلے سے دینا ہے۔ یونیسیف کے پیسے ہیں۔" میں نے اسے کہا؛ "طارق: خیال کرو یہ پیسہ امانت ہے اور امانت میں خیانت نہیں کی جاتی۔" وہ چلا گیا۔ یہ میرا ڈی جی سے دور اختلاف تھا。
یہ بھی پڑھیں: مزدور کی کم از کم تنخواہ 40 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کی سفارش
حکومت کا مقروض ہونا
یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج بھی حکومت کے ذمے میرے بہت سے ٹی اے بلز، ٹرانسفر بلز ہیں جو فنڈز کی کمی کے باعث کبھی بھی ادا نہ ہوئے۔ خیر حکومت ہی میری مقروض رہی جبکہ میں حکومت کی ایک پائی کا بھی دیندار نہیں تھا۔ الحمداللہ۔ یہ بھی صداقت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سوزوکی نے آلٹو کا نیا ماڈل متعارف کروا دیا، قیمت کتنی ہے؟ جانئے
افسر شاہی کی ایمانداری
میں نے سبھی کے ٹی اے بل کے چیکس بنائے، نوٹ لکھا، کاپی اپنے ریکارڈ کے لئے رکھی اور منظوری کے لئے بھجوا دئیے۔ ساتھ ہی نوٹ لکھا "میں اس پراجیکٹ میں مزید کام نہیں کرنا چاہتا، کسی اور افسر کو یہ assignment سونپ دی جائے۔" سبھی چیک 3 دن بعد دستخط ہو کر آئے جبکہ میری ٹرانسفر بھی اُسی دن ہی کر دی گئی اور میری جگہ یہ assignment قیوم صاحب کے سپرد ہوئی۔ قیوم نیچے سے ترقی کر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پروموٹ ہوا تھا۔ ملنسار اور ہنس مکھ افسر تھا۔ وفات پا چکا ہے۔ اللہ اُس کے درجت بلند کرے۔ آمین۔ یہ ہے افسر شاہی کی ایمانداری کی ایک جھلک۔
یہ بھی پڑھیں: سانحۂ سوات، ہیلی کاپٹر سروس کیوں فراہم نہیں کی گئی؟ بیرسٹر سیف نے وجہ بتا دی۔
بدعنوانیوں کی جھلک
میں ایسے بھی کچھ افسران کو جانتا ہوں جو سرکاری دورے پر اس شان سے نکلتے تھے کہ ان کے ساتھ ایکسٹرا گاڑی بھی ہوتی کہ اگر پہلی موٹر خراب ہو جائے تو زحمت نہ ہو۔ کسی فنکشن کے لئے انتظامات کسی اپنے کو دینا اور ریٹ کئی گنا بڑھا کر بل بنوانا بھی اُن کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ایسی ہی ایک تقریب جس کا مقامی کیٹرنگ کمپنی نے estimate بارہ لاکھ دیا تھا لاہور کی ایک فرم کو 80 لاکھ میں دیا گیا تھا۔
نتیجہ
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔








