دہلی کا الوداعی بھاگم بھاگ نظارہ کرنے کے بعد ریلوے اسٹیشن پہنچے، گاڑی روانہ ہوئی تو انہوں نے پرجوش انداز میں ہلاتھ ہلا ہلا کر ہم لوگوں کو الوداع کیا۔
دہلی کی تاریخی عمارات کا دورہ
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 250
تاریخی دورے کا آغاز
اب ہم نے اپنے باہمی طے شدہ پروگرام کے مطابق دہلی کی مسلم تاریخی عمارات کا طوفانی دورہ کرنے کے لیے مسلمان رکشہ ڈرائیوروں کی خدمات حاصل کیں اور تیزی سے چاندنی چوک کو الوداع کہتے ہوئے لال قلعہ کی طرف سڑک پر نکل آئے۔
لال قلعہ اور غالب کی حویلی
ساتھ ہی رکشہ ڈرائیور کی کمنٹری شروع ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ لال قلعہ اکبر بادشاہ نے بنوایا تھا، بعد میں دوسرے مغل بادشاہ اس میں ضرورت کے مطابق تعمیرات کرتے چلے گئے۔ قلعہ کی دیوار کے ساتھ ایک فرلانگ سفر کے بعد اس نے رکشہ ایک بار پھر شہر کی گنجان آبادی میں موڑ لیا۔ ایک گلی پر لگے بلی ماراں مارگ کے بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈرائیور نے بتایا کہ اس گلی کی ایک حویلی میں مرزا اسد اللہ خان غالب رہائش پذیر رہے۔ یہ حویلی کالے خاں کی حویلی کہلاتی تھی۔
نظام الدین اولیاء کا مزار
تھوڑا سا مزید سفر کرنے کے بعد رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ ہم بستی نظام الدین میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں ہندوستان کے مشہور صوفی بزرگ نظام الدین اولیاء کا مزار بھی واقع ہے۔ مشہور ادیب اور مصنف خواجہ حسن نظامی کا مزار بھی یہیں ملحقہ قبرستان میں موجود ہے۔ چھوٹی چھوٹی چند تنگ گلیاں گزرنے کے بعد سیاح حضرات غالب کی قبر پر پہنچ پاتے ہیں۔
مغلیہ فن تعمیر کا شاندار نمونہ
ہمارے اس بھاگم بھاگ دہلوی چکر کی اگلی منزل مغل بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ تھا، جو اپنی قدیم تعمیراتی شان و شکوہ کے باعث دہلی کے قدیم باشندے اسے اس شہر کا تاج محل قرار دیتے ہیں۔ بادشاہ ہمایوں کی وفات کے 8 سال بعد اس کی بیوہ حاجی بیگم نے 15 لاکھ کی لاگت سے 3 صدیاں پہلے یہ مقبرہ تعمیر کروایا تھا۔
قطب مینار کی شاندار تاریخ
بعدازاں ہماری آخری منزل قطب مینار تھی۔ قطب مینار کی پہلی منزل صوفی منش بادشاہ قطب الدین ایبک، اس کے بعد 3 منازل سلطان شمس الدین التمش اور پانچویں اور آخری منزل فیروز شاہ تغلق نے تعمیر کروائی۔ قطب مینار کو اینٹوں سے بنایا گیا، اور دنیا کا سب سے بلند مینار تسلیم کیا جاتا ہے اور دہلی کی ایک تاریخی پہچان شمار ہوتا ہے۔
دہلی کا الوداع
دہلی کا الوداعی بھاگم بھاگ نظارہ کرنے کے بعد ہم لوگ گاندھی فاؤنڈیشن پہنچے تو آفتاب میاں اور ہماری خواتین ریل کے ٹکٹوں سمیت انتظار گاہ میں موجود تھے۔ رات 9 بجے ان کی لائی ہوئی ویگن میں سامان لاد کر ہم لوگ دہلی ریلوے سٹیشن پہنچے۔ آفتاب میاں نے ہمیں مخصوص نشستوں پر بٹھایا۔ گاڑی روانہ ہوئی تو انہوں نے پرجوش انداز میں ہلاتھ ہلا ہلا کر ہم لوگوں کو الوداع کیا۔
امرتسر کی جانب سفر
امرتسر میں سردار چپ سنگھ اور امرتسری ناشتہ
ستیش گڑھ ایکسپریس دہلی کے ریلوے سٹیشن سے امرتسر کی جانب سفر پذیر ہوئی۔ دوستوں نے ریل میں گھومتے ہوئے ویٹر کو دال چاول کا آرڈر دیا اور پلاسٹک کے چمچوں اور منرل واٹر کی مدد سے ہم نے اس عشائیے کو حلق سے اْتارا اور اپنی اپنی مخصوص برتھوں پر چڑھ کر لیٹ گئے۔
صبح کا آغاز
تھوڑی ہی دیر میں دن بھر کی تھکاوٹ نے ہمیں نیند کی پرسکون وادی میں پہنچا دیا۔ صبح ساڑھے پانچ بجے میری آنکھ کھلی تو ارشاد چوہدری کے سوا باقی سب لوگ سو رہے تھے۔ راقم اور ارشاد چوہدری نے باری باری سب کو جگایا۔ صبح کے 6 بج رہے تھے، اور مقررہ وقت کے مطابق گاڑی کو ساڑھے چھ بجے امرتسر پہنچنا تھا۔
دوستوں سے ملاقات
پون گھنٹے بعد ہم پلیٹ فارم پر اْترے تو اپنے وعدہ کے مطابق 10 دن قبل دہلی کانپور جاتے ہوئے ہمارے ریل کے ساتھی نریندر سنگھ کے گھبرو جوان بیٹے راج چرن سنگھ اور ان کے ڈرائیور کو اپنا منتظر سامنے ہی کھڑا پایا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








