لاہور ہائیکورٹ کا پنجاب حکومت کے پراپرٹی بارے بنائے گئے قانون پر تحفظات کا اظہار
لاہور ہائیکورٹ کا پنجاب حکومت کے پراپرٹی قانون پر تحفظات
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کے پراپرٹی سے متعلق بنائے گئے قانون پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی صورتحال ’ناقابل برداشت‘ ہوگئی: جرمنی کا پہلی بار اسرائیل کیخلاف اقدامات کا عندیہ
سماعت کی تفصیلات
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب پراپرٹی آنر شپ آرڈیننس کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے پنجاب حکومت کے پراپرٹی سے متعلق بنائے گئے قانون پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 6 درخواستوں پر اعترضات ختم کر دیئے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی پیوٹن سے 50 منٹ طویل گفتگو، دونوں صدور میں بات چیت کیسی رہی۔؟ کریملن حکام نے بتا دیا
عدالتی سوالات اور تشویش
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ یہ کیا مذاق ہو رہا ہے، یہ پٹواری اور اے سی کو جج بننے کا شوق چڑھا ہے، ایک معاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے تو پٹواری کیسے کارروائی کرسکتا ہے؟ کیا پاکستان اب جنگل بن گیا ہے، جو پٹواری اور تحصیل دار جعلی دستاویزات تیار کرتا ہے وہی جائیدادوں کا فیصلہ کرے گا؟
یہ بھی پڑھیں: قاسم اور سلیمان جلوس کی صورت میں اڈیالہ جیل نہیں جائیں گے، بیرسٹر علی ظفر
چیف جسٹس کا اظہار خیال
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ ظلم نہیں ہونے دیں گے، اے سی اور پٹواری کو جج بننے کا اتنا شوق ہے تو امتحان دے کر سسٹم کا حصہ بنیں۔ آپ کا پیرا کیا کر رہا ہے، کیا اب پیرا لوگوں کو ڈگریاں دے گا؟ یہ قانون کس نے بنایا ہے؟ کیا کسی قانونی دماغ سے مشاورت کی؟ آپ نے ٹریبونلز بنائے مگر وہ بھی صرف آنکھوں کا دھوکہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دریائے سندھ ہمارا ہے،مودی سن لے، اس میں ہمارا پانی بہے گا یا انکا خون، بلاول بھٹو
درخواستوں کا پس منظر
واضح رہے کہ ایڈووکیٹ قمرالزماں اعوان سمیت دیگر کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا کہ پنجاب حکومت نے نیا قانون بنایا ہے جس کے تحت ڈی سی اے سی کو پراپرٹی تنازعات سے متعلق اختیار دیا ہے۔ فیصل آباد میں پراپرٹی 50 سال لیز پر لی گئی تھی، کیس سپریم کورٹ میں زیرالتوا تھا، دوسرے فریق نے نئے قانون کے تحت ڈی سی کو درخواست دی، جس پر ڈی سی فیصل آباد نے درخواست پر پراپرٹی سیل کر دی، استدعا ہے کہ عدالت ڈی سی کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔
عدالت کی کارروائی
بعدازاں، عدالت نے درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے 22 دسمبر کو جواب طلب کر لیا۔








