انتظامی ڈھانچہ بہت کمزور بلکہ کھوکھلا کر دیا گیا تھا، مسائل بہت تھے، ”تھوڑے وقت میں کام بہت کرنا تھا“ ان چیلنجز کیلیے تگڑی ٹیم کی تشکیل بھی ضروری تھی۔
مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 384
یہ بھی پڑھیں: پاك فوج کی میزائل اسٹرائیک، ایل او سی پر دودنیال سیکٹر میں دشمن کی پوسٹ اڑا دی
میری خوش قسمتی
محکمے کے حوالے سے پہلے خورشید صاحب سے بریفنگ لی۔ خورشید صاحب بہت سمجھ دار، قائدے قانون سے واقف، مخلص اور سیانے آدمی تھے۔ میری خوشی قسمتی کہ جب میں نے نوکری کی ابتداء کی تو غلام محمد جیسا قابل اکاؤنٹس کلرک ملا اور اب جب ڈائریکٹر کا عہدہ بحال ہوا اور نئے سرے سے سارے کام کا آغاز کرنا تھا تو اللہ نے خورشید صاحب جیسا ماتحت دیا جس سے میرا کام بہت آسان ہو گیا تھا۔ وہ جونئیر کلرک بھرتی ہوئے اور ترقی کرکے اس عہدے پر آئے تھے۔ عمال کی اس نسل سے تھے جو کام کو عبادت سمجھتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ نے پی آئی اے کو کارگو کے بعد مسافر پروازوں کی بھی اجازت دیدی
چیلنجز اور مسائل
(بعد میں یہ ترقی کرکے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر پہنچے۔ اس کی تفصیل بعد کے صفحات میں ملے گی) اشفاق گل سے بھی بریفنگ لی اور ابراہیم گھمن سے بھی۔ مسائل بہت تھے۔ چیلنج جو سمجھ آیا ”تھوڑے وقت میں کام بہت کرنا تھا“۔ 2 روز تمام افسران کی میٹنگ طلب کرکے ان کے مسائل اور ان کے حل کی تجاویز لیں۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ سوات کی تحقیقاتی رپورٹ میں نظام کی ناکامی، اعلیٰ سطح کی نااہلی، زمین پر قبضوں کا انکشاف
پرانے دفتر کی واپسی
سب سے بڑا مسئلہ پرانے ڈائریکٹر دفتر کی واپسی تھی۔ اس ملک میں یہ بھی پرابلم ہے کہ ایک بار کوئی کسی چیز پر قابض ہو جائے پھر اسے واپس لینا ناممکن ہی ہوتا ہے۔ کمشنر کو اس دفتر کی واپسی کے لئے سمری لکھی۔ خود گیا اور ان سے پرانے دفتر کی بحالی کے لئے زبانی بھی درخواست کی۔ انہوں نے اسی وقت دفتر کی واپسی کے مناسب احکامات جاری کئے اور ساتھ ہی ڈی سی او ڈاکٹر نعیم رؤف کو فون پر کہا ”اس دفتر کی مرمت کے لئے مناسب بجٹ بھی دیں۔“
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کی عدالت کی کاز لسٹ منسوخ
دفتر کی آرائش
ای ڈی او(سی ڈی)(نجف عباس نیک، دین دار اور خاندانی افسرتھے) ڈی سی او کے ہی ماتحت دفتر تھا۔ دفتر کی آرائش جو پچھلے چند سالوں میں بس اینٹوں کی عمارت ہی رہ گئی تھی ایک ماہ کے قلیل مدت میں مکمل ہوئی۔ اشفاق گل اس عرصہ اپنے دفتر سے بے دفتر رہے۔ زحمت اٹھائی، ان سے معذرت کی اور اپریل2012ء کے پہلے ہفتے نئے دفتر چلا آیا۔ اس دوران دفتر کے حوالے سے ساری معلومات جمع کر چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سوات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے
نقصانات اور چیلنجز
2001ء کے پلان نے سب سے زیادہ نقصان محکمہ مقامی حکومت کو پہنچایا تھا۔ سارے دفاتر لے لئے گئے تھے، فیلڈ فورمیشن تتر بتر ہو گئی تھی اور سب سے بڑھ کر اس کا انتظامی ڈھانچہ بہت کمزور بلکہ کھوکھلا کر دیا گیا تھا۔ اس تتر بتر محکمے کو پھر سے جوڑنا، اس کی پرانی ساکھ بحال کرنا، اس دفتر کی افادیت کو پھر سے اجاگر کرنا، نئے قائم بلدیاتی اداروں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن وغیرہ میں روز بروز بڑھتی کرپشن پر قابو کرنا، عوامی شکایات دور کرنا اور یونین کونسل میں پھیلی بد نظمی روکنا بڑے چیلنجز تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے اپنا سب سے وزنی مواصلاتی سیٹلائٹ مدار میں بھیج دیا، کن علاقوں کی کوریج کرے گا؟ جانیے
قابل بھروسہ ٹیم کی تشکیل
ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک تگڑی ٹیم کی تشکیل بھی ضروری تھی۔ اس کے لئے ایک قابل بھروسہ، محنتی، کام میں ماہر اور علاقے کی مکمل واقفیت رکھنے والے سپرنٹنڈنٹ کی ضرورت تھی بلکہ میں تو سپرنٹنڈنٹ کو دفتر کی ماں کہتا اور سمجھتا رہا ہوں۔ اسے دفتر کی ہر بات معلوم ہوتی ہے۔ اس کی سب تک رسائی ہوتی ہے، وہ ماں کی ممتا کی طرح ہی ہوتا ہے، شفیق، مشکل سے مشکل کام مسکراتے چہرے سے کرنے کا عادی۔ میری خوش قسمتی خورشید صاحب کی شکل میں یہ سب خوبیوں والا شخص میرے پاس تھا۔ کہتے ہیں "well begun is half done" میرا آدھا کام ہو گیا تھا۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








