فریبِ عام برائے عوام چل رہا ہے۔۔۔
بے چینی اور عدم استحکام
نہ بات بنتی ہے کوئی نہ کام چل رہا ہے
کئی دنوں سے یہی انتظام چل رہا ہے
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے 4 ڈویژنز میں ماسک پہننا لازمی قرار
خدا کا شکر
اُس اِک لکیر پہ دیکھو مدام چل رہا ہے
خدا کا شکر کہ سارا نظام چل رہا ہے
اگر ہو اور کوئی حکم تو سنا دیجے
محاذِ جاں کی طرف یہ غلام چل رہا ہے
یہ بھی پڑھیں: کشمیر جنگ 1948ء، رن آف کچھ جھڑپ اور پاک، بھارت جنگ 1965ء تینوں جنگوں میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا، 71ء میں ایثار کی ضرورت تھی۔
ماضی کی دھند
زمانے بیت گئے آج بھی زمانے میں
جنابِ میر کا لیکن کلام چل رہا ہے
اثر دُعاؤں میں آئے تو کس طرح آئے
یہاں حلال کی صورت حرام چل رہا ہے
نہیں ہے تیغ کوئی بھی نیام کے اندر
جدھر بھی جاؤ یہی قتلِ عام چل رہا ہے
جِنھیں عزیز ہے دستار سے بھی سر، اُن کا
سلام چل رہا ہے احترام چل رہا ہے
یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو کیس سنگل سے ڈویژن بنچ ٹرانسفر نہ کرنے کا حکم
زندگی کا تسلسل
ابھی تلک تو زمانے میں رہ رہے ہیں ہم
ابھی تلک تو ہمارا قیام چل رہا ہے
ابھی تلک ہے وہی سِحر سبز باغوں کا
فریبِ عام برائے عوام چل رہا ہے
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کے 10 امیر ترین افراد ایک سال میں 365 ارب ڈالر مزید امیر ہو گئے، صرف ایلون مسک کی دولت کتنی بڑھی؟
وفا اور تنہائی
وفا شعار ہے جس کو غرض وفا سے ہے
رہِ وفا میں وہ تنہا غلام چل رہا ہے
سخن کے شہر میں سودا ! ترا ہے اُونچا نام
ترے کلام کا اب تک دوام چل رہا ہے
یہ بھی پڑھیں: 1 مئی اور توشہ خانہ کیسز: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانتوں میں توسیع
شہر کی حالت
تمام شہر ہے خالی، اُجڑ گئے چوپال
امیرِ شہر کی محفل میں جام چل رہا ہے
تمام شہر میں دُرّے لیے جو پھرتا ہے
اُس اِک مجاہد و ملّا کا کام چل رہا ہے
تمھارے حسن کے چرچے وفا کی باتیں بھی
تمھارے نام کا سکّہ مدام چل رہا ہے
یہ بھی پڑھیں: عظیم صوفی بزرگ داتا علی ہجویریؒ کے 3 روزہ عرس کی تقریبات کا آغاز، 15 اگست کو مقامی تعطیل کا اعلان
خوشی کا لمحہ
خدا کا شکر کہ سانسیں ابھی معطر ہیں
خدا کہ شکر کہ دانہ و دام چل رہا ہے
یہ کائنات کی گردش کہیں تھمی تو نہیں!
کوئی ستارہ کہیں صبح و شام چل رہا ہے
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کے ضلع خاران میں زلزلے کے جھٹکے
ادبی محفل
سُخن کے شہر میں ہے دُھوم میر و غالب کی
کہیں کہیں پہ ہمارا بھی نام چل رہا ہے
کہیں پہ درہم و دینار کی نہیں کچھ قدر
کسی کا سکّہ یہاں صبح و شام چل رہا ہے
کہیں کسی کو میسر نہیں ہے لقمہ بھی
کہیں پہ یوں ہے کہ کھل کر حرام چل رہا ہے
کوئی نہیں جسے خالی پھرایا جاتا ہو
فقیر خوش ہے سلام و طعام چل رہا ہے
نہ پوچھ اشہبِ فکر و خیال کے بارے
کہیں ہَواؤں سے بھی تیز گام چل رہا ہے
خود احتسابی
وگرنہ کوئی بھی خوبی کہاں ہے مجھ میں نبیل
یہ میرا ماں کی دُعاؤں سے کام چل رہا ہے
کلام: ڈاکٹر نبیل احمد نبیل








