کیا نواز شریف کو ہی آگے بڑھنا ہوگا؟
خواجہ رفیق شہید کی برسی
ہر طرف نفرت و انتقام کی پھیلی آگ میں شکر ہے کہ آج خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق شہید کی برسی پر اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی باتیں سننے کو ملیں۔
لیاقت بلوچ، حامد میر، مجیب الرحمن شامی، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناءاللہ سمیت سبھی مقررین اس پر متفق تھے کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر راستہ نکالنا چاہئے اور پی ٹی آئی پر آئے دباؤ کو کم کرنے میں مدد دینی چاہئے۔
اسلام آباد میں محمود خان اچکزئی صاحب درجنوں سیاسی و سماجی عمائدین کو اکٹھا کرکے یہی پیغام دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اگر مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛ سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
عمران خان کا کردار
اب عمران خان صاحب کو بھی ملک میں لگی اس نفرت و انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے وجود کو قبول کرنا چاہئے۔
مل بیٹھ کر معاملات کو آگے بڑھانا چاہئے۔
میاں نواز شریف کو بڑا ہونے کا عملی طور پر ثبوت دینا چاہئے اور سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر نیا میثاق جمہوریت کرنا چاہئے۔ نئے رولز آف گیم طے کرکے سب کو سیاسی میدان میں یکساں ماحول فراہم کرکے فیصلہ جمہور پر چھوڑ دینا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمان کا کم عمری کی شادی پر پابندی کے بل سے متعلق بڑا اعلان
نفرت کا خاتمہ
خدارا اب بس کردیجئے، اس ملک میں نفرت و انتقام کی سیاست نے جمہوریت کا وجود ختم کردیا ہے۔ شہری آزادیاں ختم ہورہی ہیں۔ دائروں کے اس سفر میں ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ خدارا اس ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیجئے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کسی ملک کو پاکستان کی سرحدوں یا خود مختاری کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دیگا
سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری
جب تک سیاست دان اقتدار کی ہوس میں ناجائز سہولتیں اٹھانے سے باز نہیں آئیں گے تب تک جنجال پورہ میں بہتری کا کوئی امکان نہیں....
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں امریکی نژاد پاکستانی خاتون کے ساتھ سابق شوہر کی مبینہ زیادتی، مقدمہ درج
ماضی کے تجربات
کل جب یہ انتظام پی ٹی آئی کے لیے کیا گیا تھا تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی اس کو غیر جمہوری، غیر آئینی اور ملک دشمنی قرار دیتی تھیں، آج خود کے لیے اس سے بھی بڑھ کر انتظام پر خوشیاں منارہی ہیں۔ اس رویے کو ترک کرنا ہوگا۔
عمران خان کو بھی میثاق جمہوریت کے خلاف جاکر غیر سیاسی قوتوں سے سیاسی مدد لینے کی پھر سے ابتداء کرنے پر اپنی غلطی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ عدم اعتماد کے بعد سے اب تک سیاست اور ریاست کے فرق کو ختم کرنا، عدم اعتماد کے موقع پر ووٹنگ کروانے سے انکار کرنا، آئی ایم ایف کو خطوط لکھنا، ایک اہم تعنیاتی کے موقع پر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنا، امریکہ و برطانیہ سے پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت کی اپیلیں کرنا، گرفتاری کو روکنے کے لیے زمان پارک میں سیاسی کارکنان کے اجتماع منعقد کرکے گرفتاری سے بچنے کے لیے ڈھال بنانا، گرفتاری کی صورت میں جان خطرے میں پڑجانے کی تشویش میں مبتلا کرکے کارکنان کے جذبات کو بھڑکانا، گرفتاری کے بعد 9 مئی کے روز سینکڑوں مقامات پر انہی جذباتی کارکنان کا طیش میں آنا اور پھر جلاو گھیراؤ کرتے ہوئے سرکاری تنصیبات پر حملہ آور ہونا انتہائی غیر سیاسی رویہ تھا۔ عمران خان صاحب کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام میں ان کا بھی حصہ شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی سمیت ملک بھر کیلئے بجلی 1 روپے 71 پیسے سستی
سیاسی بلوغت کی ضرورت
ایسے ہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی ماننا ہوگا کہ انہوں نے بھی 2024 کے الیکشن میں پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے اختلافات سے سیاسی فائدے حاصل کرتے ہوئے اسی راستے کو چن لیا جو پی ڈی ایم کی تحریک کے راستے پر تھا۔ اگر 2018 کا الیکشن عمران خان نے چرایا تھا تو 2024 میں یہی الزام انہوں نے اپنے سر لے لیا۔
میاں نواز شریف اس وقت سب سے سینئر سیاست دان ہیں۔ انہیں بڑھے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں کرکے ملک کو اس سیاسی عدم استحکام کی دلدل سے نکالنے کے لیے معاملات کو سدھارنے کی طرف لے جانا چاہئے۔ الیکشن میں دھاندلی کا رونا باری باری سب سیاسی پارٹیاں روتی ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھاتیں؟
آخری سوچ
اگر دو آئینی ترامیم آسکتی ہیں تو جو اس ملک کا سب سے بڑا تنازعہ ہے اس کے تدارک کے لیے ایک اور ترمیم کیوں نہیں لے آتے؟
یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہماری سیاسی جماعتیں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالف سیاسی جماعتوں کے وجود اور مینڈیٹ کا احترام کریں۔ اگر ایک نے دوسروں کو چور ڈاکو اور لٹیرے قرار دے کر ان کے ساتھ بیٹھنے میں شرم اور عار محسوس کرنی ہے اور دوسروں نے اسے ملک دشمن، غدار اور جذباتی سمجھتے ہوئے اس پر صرف طعنہ زنی کرنی ہے اور چاہنا ہے کہ وہ ایسے ہی سختیاں بھگتتا رہے تو پھر معاملات دن بدن مزید سیاسی عدم استحکام کی جانب جائیں گے۔ یہی ایک راستہ ہے جو سیاسی قائدین کو چننا ہوگا اور اپنی ضد، انا اور مفادات کو ملکی مفاد اور بہتر مستقبل پر قربان کرنا ہوگا۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔








