پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، عوامی سطح پر ذہنوں کی دوریاں ختم ہوں تو حکومتی سطح پرمذاکرات میں سہولت پیدا ہو سکتی ہے
مصنف کی معلومات
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 256
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز سے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کی ملاقات، امن و امان کی صورتحال خراب کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے پر اتفاق
پاک، بھارت تعلقات اور امن آشا کے حقیقی تقاضے
پاک، بھارت تعلقات کا فروغ اور پائیدار امن دونوں ممالک میں غربت کے خاتمے اور جنگ کے امکانات ختم کرنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کی آشا پروان چڑھانے کے لیے 2005 ء سے 2010 ء تک جنگ گروپ کے ٹی وی چینل جیو اور الجنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک کے اخبار نویسوں کی تنظیم نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کی نیتوں کا صاف ہونا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بل گیٹس معروف بھارتی ڈرامہ ’’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی 2‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائیں گے
سٹیزن کونسل کے کردار
ہمارے ادارہ سٹیزن کونسل کے دوستوں نے اپنی ممبر شکیلہ رشید ایم این اے کے کہنے پر 2007 ء سے 2010 ء تک پاک، بھارت امن آشا کے پروگراموں میں سرگرم حصہ لیا اور دونوں ممالک کے درمیان وفود کے تبادلے ہوئے۔ اس ضمن میں سٹیزن کونسل نے 2 جولائی 2010 ء کو ایک سیمینار "پاک، بھارت تعلقات اور امن آشا کے حقیقی تقاضے" کے موضوع پر ہمدرد فاؤنڈیشن ہال میں منعقد کیا، جس کی کارروائی کا خلاصہ درج ذیل ہے:
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں بے اولادی سے دلبرداشتہ شخص نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی
پروفیسر نصیر اے چوہدری کی رائے
پروفیسر نصیر اے چوہدری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان جب علیٰحدہ ہوئے تو نہ ہی کسی حوالے سے الگ الگ ثقافت اجاگر ہوئی اور بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوئے جن کا پہلے وجود تک نہیں تھا۔ شدید اختلافات اور نظریاتی تضاد کی وجہ سے دونوں ممالک میں 3 جنگیں ہوئیں اور عوام کے درمیان نفرت پیدا ہوئی۔ یہ نفرت سول سوسائٹی اور این جی اوز کے سماجی رہنما ختم کروا سکتے ہیں۔ جنگوں کی وجہ سے غربت، اقتصادی بدحالی پیدا ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا ؟
پروفیسر مشکور احمد صدیقی کا نقطہ نظر
پروفیسر مشکور احمد صدیقی نے کہا کہ امن آشا سے پاک، بھارت عوام کی توقعات وابستہ ہیں اور دونوں ہمسایہ ممالک کے مستقبل بھی اس سے وابستہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب جنگ سے مسائل حل نہیں ہو سکتے تو تنازعات کیسے حل کئے جائیں؟ اگر بھارت سادگی سے مسائل کا حل تلاش کرتا ہے تو بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو دبئی ایئر شو میں شرکت سے روک دیا
حبیب علی کی باتیں
حبیب علی نے کہا کہ دونوں ممالک کی لیڈر شپ میں خلوص کی کمی ہے۔ یہ لوگ محلات میں رہتے ہیں اور انہیں غریبوں اور مہنگائی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بھارت میں لیڈروں میں سادگی زیادہ ہے، جبکہ ہمارے ہاں محاسبہ کی سخت کمی ہے۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








