گاؤں کے خوشحال گھرانے غُرباء کی مدد کرنا فرض سمجھتے،گھوم پھر کر مانگنے کا رواج کم تھا، لڑکے گُلّی ڈنڈا کھیلتے، لڑکیوں کی تعلیم کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا

مصنف کا تعارف

مصنف: ع غ جانباز
قسط: 7

یہ بھی پڑھیں: بھارتی حکومت کی بوکھلاہٹ، پاکستان سے رابطوں کے الزام میں موچی گرفتار کرلیا گیا

گاؤں کی معاشرتی زندگی

گاؤں کے خوشحال گھرانے غُرباء کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور اُن کے گھروں میں خُورد و نوش اور دُوسری روز مرّہ استعمال کی اشیاء بھیجتے رہتے، لہٰذا گھوم پھر کر مانگنے کا رَواج کم تھا۔ صرف ایک پیشہ ور ”شاہو“ تھا، جو گاؤں گاؤں کے چکّر لگاتا اور سارنگی بجا کر کچھ راگ گاتا جو عموماً مذہبی شعروں پر مشتمل ہوتے تھے۔ ان کے گلے میں دو کپڑے کے بنے ہوئے لمبے تھیلے لٹکا کرتے تھے۔ عورتیں اُس کی آواز سن کر عموماً آٹا یا اور کوئی کھانے کی چیز جیسے گڑ وغیرہ اَندر سے لا کر اُس کی ”کھلی“ کی ہوئی جھولی میں ڈال دیتیں اور وہ اگلے گھر کی طرف چل دیتا۔ ایک تھیلے میں صرف آٹا ڈالا جاتا اور دوسرے میں دوسری متفرق اشیاء۔ ان لوگوں کو ”بھرائی“ کہا جاتا تھا اور اُن کے کام کو کوئی بُرا کام تصور نہ کرتا تھا، کیونکہ اُن کے کام میں ایک آرٹ کا عمل دخل تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے حلال گوشت کی برآمدی پالیسی کی منظوری دے دی

کھیلوں کا ثقافتی منظرنامہ

کھیلوں میں ”گُلّی ڈنڈا“ بچّوں میں کافی رواج پا چکا تھا اور فارغ وقت میں اکثر لڑکے گُلّی ڈنڈا کھیلتے۔ بڑوں میں صرف کبڈی کا کھیل تھا جو بعض تہواروں کے موقعوں پر بڑے اہتمام کے ساتھ کھیلا جاتا۔ بعض دفعہ دوسرے گاؤں کے ساتھ کبڈی کے میچ کھیلے جاتے تھے۔ جہاں تک دُوسری کھیلوں جیسے فٹ بال وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ سکولوں تک محدود تھیں۔ یہ اِس لیے بھی کہ گاؤں میں اِن کھیلوں کے لیے گراؤنڈ میسر نہ تھے۔ گاؤں کے چاروں طرف کھلی گلیاں / سڑکیں تھیں، لیکن گاؤں کے اندر گلیاں تنگ اور پُر پیچ تھیں۔ کسی خاص ترتیب کا عمل دخل اُن کی تیاری میں نہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور پولیس کی بروقت مداخلت نے 14 سالہ لڑکی کے اغواء کی کوشش ناکام بنا دی، لڑکا گرفتار

زمین کی زرخیزی اور فصلیں

چونکہ مشرقی پنجاب کا کافی حصّہ کوہ ہمالیہ کے دامن میں پڑتا ہے، لہٰذا اِس علاقے کے کافی حصّے میں برسات کے موسم میں کافی بارش ہوجاتی ہے۔ ساؤنی کی فصلوں کو کبھی کبھار ہی پانی دینے کی ضرورت پڑتی تھی۔ برساتی پانی کے نکاس کے لیے برساتی نالے موجود تھے، لہٰذا اُن کے ذریعے پانی خود بخود نکل جاتا۔ زیادہ پانی آجانے کی صورت میں بعض دفعہ سکول بھی نہیں جا سکتے تھے کہ بھرے ندی نالوں سے کیسے گذریں؟ اُس وقت علاقے کی فصلوں میں گندم، کماد، دالیں، مکئی، چارہ وغیرہ تھے۔ ہمارے گاؤں کے ”سالم مسور“ بہت مشہور تھے، اِسی لیے بطور سوغات دُور دور تک بھیجے جاتے تھے۔ کماد سے گڑ شکر ہی بنتا تھا کیونکہ وہاں کوئی شوگر مل نہ تھی۔ چینی کے ڈیپو بنے تھے، جہاں کوئی کوئی کو چینی مل جاتی تھی۔ پھلوں میں آم اُس علاقے کی خاص پیداوار تھی۔ باغات عام تھے۔ چُوسنے والا آم ہوتا تھا جبکہ قلمی آم ابھی اُس علاقے میں داخل نہیں ہوا تھا۔

تعلیم کی صورت حال

تعلیم عام نہ تھی۔ کسی کسی گاؤں میں پرائمری سکول تھا، جہاں چار جماعت تک کلاسیں ہوتی تھیں۔ قصبوں اور شہروں میں مڈل اور ہائی سکول تھے، جہاں جاکر پڑھنے کا رواج اِتنا عام نہ تھا۔ کالج صرف ضلعی صدر مقام پر قائم تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...