دو تین بھینسوں کو چارہ ڈالنا، نہلانا، حقّہ تازہ کرنا، چلم میں اچھی طرح تمباکو جما کر اُوپر گڑ کی تہہ رکھنا، کبھی کبھی گھما کر خود بھی کش لگا لینا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے
حیات کا معمول
مصنف: ع غ جانباز
قسط: 9
یہ بھی پڑھیں: معروف بالی ووڈ اداکار نے نریندر مودی کو بے شرم، بے رحم اور سنگدل شخص قرار دے دیا۔
گرمیوں کی تربیت
گرمیوں میں جب دُھوپ آڑے آتی اور پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہنے لگتا تو توقّف کر کے اُس گاؤں کی مسجد کے باہر لگے درختوں کی چھاؤں میں بائیں طرف کی جھولی سے کچھ چیزیں نکال کر پیٹ کی آگ بجھاتا اور وہاں مسجد میں لگی پانی کی ٹوٹیوں سے پانی کے دو تین اوک مُنہ میں ڈال کر واپسی کی راہ لیتا۔
یہ بھی پڑھیں: چین سے 100 جدید ترین الیکٹرک بسیں پاکستان کے لیے روانہ
دادا جان کی روایات
جب وہ گھر پہنچتا تو سب کچھ اپنی بیوی کے سپرد کرتا اور روزانہ کے معمول کے مطابق اپنے دادا جان کے بڑے بھائی ”حاجی قطب الدین“ کے ڈیرے پر جا حاضر ہوتا۔ وہاں حاجی صاحب کی دو تین بھینسوں کا خیال رکھنے، اُن کو نہلانے اور حاجی صاحب کا حُقّہ تازہ کرنے میں مصروف رہتا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن نے اپنے عملے کے لیے نئی وردی متعارف کرا دی
حاجی صاحب کی مہربانیاں
حاجی صاحب اکثر "شاہو" سے کہتے "گندم کی ایک دو بوری لے جاؤ، گھر میں تنگی ہوگی" جبکہ دوسری اشیائے خورد و نوش کا ذکر بھی کرتے رہتے۔ دیکھنے میں آتا تھا کہ شاہو کہتا کہ گھر میں کافی گہیوں، آٹا ہے، لیکن کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر خود مانگ کر چیزیں لے جاتا۔
یہ بھی پڑھیں: محسن نقوی کا بلائنڈ کرکٹ ٹیم کیلئے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان
شاہو کا گھر
شاہو کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ بڑی بیٹی اَٹھارہ بیس سال کی ہوگئی تھی۔ اب "شاہو" کو اُس کے بیاہ کی فکر ہوئی، لیکن اُس کو کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ زمانہ جہیز کی بات کرنے لگا تھا، اور اس نے اپنے سگے بھائی سے بھی امید چھوڑی۔
خیالات کا تضاد
ایک دن بیوی نے کہا کہ اپنے سگے بھائی کو شہر جا کر ملو تاکہ وہ اپنے بیٹے "امجد" کے لیے سادگی سے بیاہ کر لے جائے، مگر "شاہو" کو یقین تھا کہ اُس کا بھائی اِس بات پر رضامند نہ ہوگا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








