سفرنامے ممالک کے درمیان محبت کے پل باندھنے کا کام کرتے ہیں، مغربی حکمرانوں نے بھارت میں کارخانوں کا زہریلا پانی دریاؤں میں ڈالا
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 259
ستیاپال کا اظہار خیال
سفرنامے ممالک کے درمیان محبت کے پل باندھنے کا کام کرتے ہیں۔ اویس شیخ نے سفرنامہ "سمجھوتہ ایکسپریس" لکھا تھا جس میں غالب، خسرو وغیرہ کا ذکر تھا۔ مبشر صاحب نے India Gate کتاب لکھی، جس میں کنیا کماری سے کراچی تک "بھارت کیا سوچ رہا ہے"۔ راحت ملک صاحب نے سفرنامہ اور انٹرویوز شائع کیے۔
نیا سفرنامہ: بھارت درشن
اب ظفر علی راجا نے "بھارت درشن" لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ بہت سی غلط فہمیوں کو خوش فہمیوں میں بدلے گا۔ لوگوں کے دلوں میں بہت سے اندیشے ہیں۔ کمڈ دیوان نے دہلی سے امرتسر کے دوران بہت سے سوال کیے، میں نے کہا کہ لاہور پہنچ کر آپ کو خود جواب مل جائے گا۔ دہلی میں انہوں نے عورتوں کا جو امیج بنایا ہوا تھا، وہ ٹوٹ گیا اور لاہور کی زبردست تعریف کی۔ دہلی کی نسبت یہاں صفائی زیادہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے بزرگ بھی گھروں کی صفائی و لیپائی کا بہت خیال رکھتے تھے۔
صفائی کی حالت
ہمارے صاف ستھرے معاشرے کو دراصل مغرب کے حکمرانوں نے خراب کیا ہے۔ شراب دی ہے، عریانی دی ہے اور کوڑا دیا ہے۔ راجہ صاحب کے سفرنامے میں گنگا صفائی کی مہم کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ مغربی حکمرانوں نے جب بھارت میں کارخانے لگائے تو زہریلا پانی دریاؤں میں ڈالنے کی روایت شروع کی، جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے دریا آلودہ ہو گئے ہیں۔
زرعی ترقی اور تحقیق
پاکستان جب آزاد ہوا تو منٹگمری کو باؤل آف انڈیا کہا جاتا تھا۔ پاکستان کی زراعت نے بھارت کے مقابلے میں اتنی ترقی نہیں دکھائی۔ ہندوستان زراعت اور کپڑے کے میدان میں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ زرعی لوگوں اور ماہرین کے وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے۔ یوریا اور زرعی ادویات کے زہریلے اثرات پر تحقیق ہونی چاہیے اور آرگینک زراعت کو توسیع دینی چاہیے۔
کامیاب تجربات
گائے کے پیشاب کو زرعی سپرے کے طور پر استعمال کرنے کے کامیاب تجربات کیے گئے ہیں۔ بمبئی میں شہری کوڑے اور گوبر کو ملا کر کھاد بنانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے اور "کَچھ" گجرات میں 12000 ایکڑ بنجر زمین کو سرسبز و شاداب بنا دیا ہے۔ یہ کھاد اب کچن گارڈن اور 50 کلو کا بیگ فصلوں کے لیے فروخت ہو رہی ہے۔
تجارت میں اضافہ
کوڑے سے گیس بھی بنائی جا رہی ہے۔ سفر نامہ نگاروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور ان کے احوال بھی عوام تک پہنچانا چاہیے۔ اب 15 ہزار کروڑ کی تجارت دونوں ممالک میں ہو رہی ہے، جو کہ 1990ء میں 3 ہزار کروڑ تک محدود تھی۔
تعارف: پروفیسر نصیر اے چوہدری
راجہ صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے "بھارت درشن" نامی سفرنامے میں بھارت کی پْراثر تصویر کشی کی ہے۔ یہ سفرنامہ دراصل مختلف علاقوں کی Situation Analysis ہے اور شخصیات کے خوبصورت خاکے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات پر انہوں نے نہایت تلخ و ترش باتوں کو شگفتہ انداز سے بیان کیا ہے۔ یہ سفرنامہ نہیں بلکہ اسے تاریخی واقعات کی وضاحت پر مشتمل ایک خوبصورت کتاب بھی کہا جا سکتا ہے۔
ستیا پال جی کا کردار
رانا امیر احمد خاں نے کہا کہ ستیا پال جی پاک، بھارت امن اور باہمی دوستی کے بہت بڑے پرچارک ہیں۔ ہم ستیاپال جی کے شکر گزار ہیں کہ وہ جب پاکستان آتے ہیں ہمیں شرف ملاقات بخشتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








